Maktaba Wahhabi

554 - 702
سی اغراض کو کوئی دخل نہیں جن پر کوئی بھی اہل علم موافقت نہ کرتا ہو۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اگر یہ تأویلات شریعت کے مطابق راجح ہیں تو پھر ان میں کسی کوکوئی کلام نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر یہ تاویلات مرجوح ہیں ؛ توحضرت علی رضی اللہ عنہ سے جوکچھ ہوا ؛ اور مسلمانوں کے مابین جتنی خونریزی ہوئی وہ اس سے زیادہ تاویل یا عذر کی مستحق نہیں ہوسکتی۔ان اقوال سے حجت اخذ کرنا ان لوگوں کی حجتوں سے زیادہ مضبوط ہے جن کی رائے کی وجہ سے جنگوں کی آگ بھڑکی۔ [حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ او رجناب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ]: [اعتراض]: شیعہ مصنف کا یہ قول کہ :’’حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مورد طعن بناتے اور ان کی تکفیر کیا کرتے تھے۔‘‘ [جواب]:یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں ایک جھوٹا الزام ہے۔علماء کرام اچھی طرح جانتے ہیں کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی تکفیر نہیں کیا کرتے تھے۔ بلکہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنایا گیا توآپ کوفہ تشریف لے گئے اور وہاں پر فرمایا: ’’ہم نے اپنے میں سے سب سے اعلی اور اونچامقام رکھنے والے کو والی مقرر کیا ہے ؛ اور اس میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔‘‘ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلافت کے پہلے چند سال نظام بالکل درست چلتا رہا ۔جب آخری چند سال آئے تو آپ پر اعتراضات کیے جانے لگے۔بعض امور ایسے تھے جن میں لوگ معذور تھے ۔ اور بہت سارے امور ایسے تھے جن میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ معذور تھے۔ ان جملہ امور میں سے حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا معاملہ بھی ہے۔ آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے اس لیے ناراض ہو گئے تھے کہ آپ نے قرآن کریم کی کتابت ان کی بجائے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو سپرد کی تھی [1] اور باقی صحابہ کو حکم دے دیا تھا کہ اپنے پاس موجود مصاحف کودھو کر ختم کردیں ۔
Flag Counter