Maktaba Wahhabi

574 - 702
دونوں کو قصاص میں قتل کیا جائے گا؛ جیسے کہ مجبور کیا گیا اور مجبور کرنے والا ۔ اس کی مثال زنا اور قصاص کے گواہوں کی ہے جب وہ اپنی گواہی سے رجوع کریں اور کہیں کہ ہم نے جان بوجھ کر یہ جھوٹی گواہی دی تھی۔جمہور جیسے امام مالک ‘ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہ مسلک ہے۔ پھر اگر ایک نے پکڑا ہو اور دوسرے نے قتل کیا ہو ؛ تو امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : پکڑنے والے اور قتل کرنے والے دونوں کوقصاص میں قتل کیا جائے گا۔ امام احمد رحمہ اللہ سے بھی دوروایتوں میں سے ایک یہی ہے ۔ اور دوسری روایت یہ ہے کہ قتل کرنے والے کو قتل کیا جائے گا اور پکڑنے والے کو تا حیات قیدکیا جائے گا؛ یہاں تک کہ وہ مر جائے۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی روایت کیا گیا ہے کہ قصاص صرف قتل کرنے والے پر ہے ۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ کا مذہب ہے۔ پھر ایسے ہی قتل کا حکم دینے والے کے بارے میں بھی اختلاف ہے جب وہ قتل کرنے پر مجبور نہ کرے؛ اور کسی ایسے آدمی کو قتل کرنے کا حکم دے جس کے قتل کرنے کو وہ حرام سمجھتا بھی ہو۔توکیا اس صورت میں حکم دینے والے کو بھی قتل کیا جائے گا یا نہیں ؟ اس میں دو قول ہیں ۔ جب کہ مدد گار ؛ راہزنی یااس طرح کے کاموں میں جس کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے؛ [ اس کے بارے میں ] جمہور علماء کرام رحمہم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ مدد گار اور براہ راست مجرم دونوں پر حد جاری کی جائے گی۔ امام ابو حنیفہ ‘ امام مالک ؛ اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ڈاکؤوں کے لیے راستہ کی نگرانی وحفاظت کرنے والے کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا کرتے تھے۔ جب ہرمزان کا شمار حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قتل پر مدد کرنے والوں میں ہوتا ہے تو ایک قول کے مطابق اس کو قصاص میں قتل کرنا جائز تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ صنعاء میں قتل ہونے والے آدمی کے متعلق فرمایا کرتے تھے : ’’ اگر اس پر تمام صنعاء والے ٹوٹ پڑتے تو میں اس کے بدلے میں ان سب کو قتل کردیتا۔‘‘ [حکمران کے قاتل کی سزا]: ایسے ہی حکمران کو قتل کرنے والے کے بارے میں اختلاف ہے ۔کیا حاکم کے قاتل کو قصاص میں قتل کیا جائے گا یا حد میں قتل کیا جائے گا؟ اس میں امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب اور باقی مذاہب میں دو قول ہیں ۔ پہلا قول:....انہیں حد میں قتل کیا جائے گا۔ جیسے بغاوت میں قتل کرنے والے کو حد لگاکر قتل کیاجاتا ہے۔ اس لیے کہ حکمران کو قتل کرنے میں ڈاکہ زنی اور رہزنی سے بڑھ کر فساد ہے۔ پس حکمران کوقتل کرنے والا اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والا اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرنے والا ہے ۔اسی پر حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہماکے قتل کو قیاس کیا گیا ہے ؛ جب انہوں نے اپنے باپ کے قاتل عبد الرحمن بن ملجم کو قتل کردیا تھا۔ایسے ہی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے قتل کا مسئلہ بھی ہے۔
Flag Counter