Maktaba Wahhabi

581 - 702
اگر آپ اس کو والی بننے سے روکنے میں عاجز تھے ؛ تو پھر حد قائم کرنے سے عاجز نہیں آگئے؟تو معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بذات خود ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ پر حد قائم کرنے پر قادر نہ تھے اگر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایسا نہ چاہتے ہوتے۔ جب عثمان رضی اللہ عنہ بھی حد قائم کرنا چاہتے تھے تو یہ ان کی دین داری اور عدل و انصاف کی دلیل ہے۔ یہ امر باعث حیرت و استعجاب ہے کہ شیعہ خود اس بات کے دعوے دار ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں حدود کو پامال کیا جاتا رہا ؛ حتی کہ خودحضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں شرعی حدود کو پامال کیا جاتا رہا اور آپ تقیہ کی بنا پر خاموش رہا کرتے تھے۔ اگر آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں یہ بات کہی بھی تھی تو اس لیے کہی ہوگی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور اس کے اعوان و انصار اقامت حدود میں ان کی اعانت کرتے تھے، اگر آپ اس سے تقیہ کرتے ہوتے تو یوں نہ کہتے۔اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان حضرات سے بڑھ کر حدود شریعت قائم کرنے پر قادر تھے۔اس لیے کہ شیعہ کے قول کے مطابق تو حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے سامنے حق کا اظہار کرنے پر قادر نہ تھے۔اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں کی موجود گی میں عبید اللہ بن عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ نائب ولید بن عقبہ پر حد قائم نہ کرسکے تھے۔ رافضیوں کا المیہ یہی ہے کہ یہ ایسی باتیں کرتے ہیں جو آپس میں متناقض ہوا کرتی ہیں ۔ [عہد عثمانی اور اذان کا اضافہ ]: [اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’عثمان رضی اللہ عنہ نے جمعہ میں ایک اذان کا اضافہ کیا جو کہ بدعت ہے؛ یہ اذان اب تک سنت سمجھی جاتی ہے۔‘‘ [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ حضر ت علی رضی اللہ عنہ نے عہد ِ عثمانی میں بھی اس پر موافقت کا اظہار کیا تھا؛اور اپنے عہد خلافت میں اسی پر عمل کیا اور اس اذان کو بند نہ کیا ۔حالانکہ اس کا بند کرنا حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کو معزول کرنے اور ان کے خلاف نبرد آزما ہونے سے آسان تر تھا۔جیسا کہ آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں کئی ایک لوگوں کو والی بنانے پر اعتراض کیا تھا۔ بلکہ آپ نے مشورہ دیاتھا کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو ان کے منصب سے معزول کیا جائے۔ یہ بات معلوم شدہ ہے کہ ان والیان کو معزول کرنے اور ان کے ساتھ اُس جنگ کرنے کی نسبت بہت آسان تھاجس جنگ میں آخر کار آپ عاجز آگئے۔[اگر زیادہ نہیں تو ] کم از کم کوفہ اور اپنی عملداری کے دیگر علاقوں سے اس بدعت کو ختم کرنا تو آپ کے لیے آسان تھا۔اور ایسا کرنا آپ کی قدرت و استطاعت سے باہر بھی نہ تھا۔ اور اگر آپ نے اس اذان کو بندکیا ہوتا تو لوگ یہ خبر نقل کرتے [اور تاریخ کی کتابوں میں اس کا کوئی وجود ہوتا]۔ اگر کہا جائے کہ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس اذان کو بند کردیتے تو لوگ اس کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔‘‘ ہم کہیں گے کہ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ لوگ اس اذان کے مستحب اور مستحسن ہونے میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہم نوا تھے۔ اس کی حد یہ ہے کہ حضرت عمار بن یاسر، سہل بن حُنَیف اور دیگر سابقین اوّلین صحابہ رضی اللہ عنہم بھی حضرت
Flag Counter