Maktaba Wahhabi

593 - 702
٭ ایسے ہی وہ شبہ جسے شہرستانی نے اپنی کتاب ’’الملل و النحل ‘‘ کے شروع میں نقل کیا ہے جوابلیس اور ملائکہ کے مابین مناظرہ کا واقعہ ہے ؛ اس طرح کی چیزیں تو منقولات کی بنیاد پر ہی معلوم ہوسکتی ہیں ؛ مگر اس نے اس واقعہ کی کوئی سند ذکر نہیں کی۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس واقعہ کی کوئی سند ہی نہیں ۔ اس لیے کہ یہ قصہ نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک سے۔نہ ہی مشہور ائمہ اسلام میں سے کسی ایک نے یہ قصہ ذکرکیا اورنہ ہی اہل کتاب کے ہاں اس قسم کی کوئی روایت پائی جاتی ہے۔ حالانکہ اس قسم کے واقعات انبیاء کرام علیہم السلام سے منقول ہونے کی بنیاد پر ہی معلوم ہوسکتے ہیں ۔البتہ اس قصہ کا کچھ حصہ نصاری کی بعض کتابوں میں اور بعض دوسرے فرقوں کی کتابوں میں پایا جاتا ہے۔ ٭ شہرستانی اکثر طور پرفرقوں کے عقائد معتزلہ کی کتابوں سے نقل کرتا ہے۔حالانکہ یہ لوگ تقدیر کے منکر ہیں ۔ پس یہاں سے یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ تقدیر کو جھٹلانے والے بعض لوگوں نے یہ قصہ گھڑلیا ہوگا تاکہ تقدیر کو ثابت ماننے والے لوگوں پر حجت قائم کی جاسکے۔واللہ اعلم۔جیسا کہ یہ لوگ یہودیوں کی زبانی شعر بھی گھڑ لیا کرتے تھے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ منکرین تقدیر اکثر طور پر کفار کی زبانی ایسے قصے گھڑلیتے ہیں جنہیں وہ اللہ تعالیٰ پر حجت بناسکیں ۔ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کیسے تقدیر کو جھٹلایا جاسکے۔ اور جو کوئی اس کی تصدیق کرتا ہے یقیناً وہ اللہ تعالیٰ کے خلاف مخلوق کے حق میں حجت قائم کرتا ہے۔ جیسے کہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بہت سارے شیعہ یہود کی زبان پر حجتیں گھڑلیتے ہیں اور پھر اہل سنت و الجماعت سے کہتے ہیں :یہودیوں کے اس شبہ کا جواب دو۔ اور ایسی باتیں ان عوام الناس کے سامنے کرتے ہیں جو اس حجت کے فساد و بطلان کو نہیں جانتے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد پہلا اختلاف اور رافضی دعوی: ٭ رافضی مصنف کا یہ کہنا کہ: ’’ ابلیسی شبہ کے بعد فساد کا سب سے پہلا اختلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کے متعلق واقع ہوا۔‘‘ ٭ [جواب]:یہ ایک باطل دعوی اور کھلا ہوا جھوٹ ہے۔اگر اس سے رافضی کی مراد یہ ہے کہ یہ سب سے پہلا گناہ کاکام تھا جس کا ارتکاب کیا گیا ؛ تو یہ کئی ایک وجوہات کی بنا پر باطل ہے: ٭ پہلی وجہ :....ابلیسی شبہ کی بنیاد پر ملائکہ میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوا۔ اور نہ ہی یہ شبہ بنی آدم نے ابلیس سے سنا کہ ان کے مابین اختلاف پیدا کیا جائے۔ ٭ دوسری وجہ :....بنی آدم کے مابین حضرت نوح علیہ السلام کے زمانہ سے اختلاف چلا آرہا ہے ۔ اسلام سے پہلے لوگوں کے مابین جو اختلاف پایا جاتا تھا؛ وہ اسلام میں پائے جانے والے اختلاف کی نسبت بہت زیادہ تھا ۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِیْنَ وَ اَنْزَلَ مَعَہُمُ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ فِیْمَا اخْتَلَفُوْا فِیْہِ وَ مَا اخْتَلَفَ فِیْہِ اِلَّا الَّذِیْنَ اُوْتُوْہُ مِنْ بَعْدِ مَا
Flag Counter