Maktaba Wahhabi

622 - 702
جائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترک کردہ مال وراثت تھا؛ حالانکہ یہ نظریہ ہی باطل ہے ؛ تو پھر بھی آپ نے اہل بیت سے ایک چھوٹا سا گاؤں لیا تھا؛ کوئی بڑا گاؤ ں یا بڑا شہر نہیں تھا۔ [جس سے کئی گنا زائد اہل بیت کو دے بھی دیا تھا۔] ٭ بیشک علماء کرام کے مابین فرائض کے اور دیگر مسائل میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ ہاشمیوں اور دیگر لوگوں کے اموال میں اختلاف فدک کے مسئلہ سے کئی گنا زیادہ تھا۔مگر ان میں اختلاف کرنے والوں کو ظالم نہیں کہا جاتا ۔ اس لیے کہ اس میں اجتہاد سے فیصلہ کیا گیا ۔ ٭ فرض کرلیجیے: خلفاء نے اجتہاد کیا ؛ اور میراث غیرمستحق کو دیدی۔اجتہاد کرنے والے علمائے کرام سے اس سے بھی بڑے بڑے واقعات صادر ہوجاتے ہیں ۔ اور ان علماء کا مقام بھی ان ائمہ کی نسبت کم تر ہوتا ہے۔مگر اس کی وجہ سے ان میں سے کسی ایک کی دین داری پر کوئی تنقید اور قدح نہیں کی جاتی۔بالفرض اگر یہ مان لیں کہ انہوں نے باطن میں غلطی کی ہے ‘ اس لیے کہ انہوں نے اپنے اجتہاد سے فیصلہ کیا ہے ؛ تو پھر خلفاء راشدین کے متعلق کیسے کوئی بات کہی جاسکتی ہے ۔ ٭ اصل قصہ یہ ہے کہ جہلاء اور شرارت پسند لوگ بات کا بتنگڑ بنا کر فدک کے واقعہ کو پیش کرتے ہیں ،اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر جھوٹ اور بہتان کے شر کا دروازہ کھول سکیں ۔اس ضمن میں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ان حضرات کے بعد خلیفہ بنے۔آپ کے عہد خلافت میں فدک اوردیگر جملہ اموال آپ ہی کے زیر تصرف تھے، مگر آپ نے اولاد فاطمہ کو واپس نہیں کیے تھے؛اور نہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ترکہ ورثاء میں تقسیم کیا۔نہ ہی ازواج مطہرات سے کچھ لیا دیااور نہ ہی اولاد عباس سے۔ بقول شیعہ اگرمان لیں کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہ نے ظلم کیا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جب صاحب استطاعت و قدرت تھے ؛تواس کا ازالہ کیوں نہ کیا؟حالانکہ اس ظلم کا ازالہ کرنا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے لشکر سے لڑنے کی نسبت بہت آسان تھا۔ کیا آپ یہ سو چ سکتے ہیں کہ آپ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ تو لڑلیں ‘جس کے نتیجہ میں اتنابڑا شرو فساد پیدا ہوا؛مگر ان مستحقین کومعمولی ساحق بھی نہ دیتے حالانکہ ایسا کرنا آپ کے لیے بہت آسان بھی تھا۔ [منکرین زکوٰۃ سے جنگ اور شیعہ کااعتراض]: [اعتراض]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ چھٹا اختلاف منکرین زکوٰۃ کے متعلق ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کی تھی ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں اجتہاد سے کام لے کر لونڈی، غلام اور مال ان کو واپس کیا اور قیدیوں کو رہا کردیا ۔ ‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا] [جواب]:ہم کہتے ہیں : یہ ایسا کھلاہوا جھوٹ ہے جو مسلمانوں کے احوال کا علم رکھنے والے کسی بھی انسان پر مخفی نہیں ۔ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہمادونوں منکرین زکوٰۃ کے خلاف جنگ آزما ہونے میں متفق تھے۔اس سے قبل حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپ سے اس مسئلہ پر بحث وتکرار کی تھی۔صحیح بخاری اور مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے
Flag Counter