Maktaba Wahhabi

639 - 702
سے بعض نے بعد میں آپ کو کافر کہا؛ اور بعض نے آپ سے جنگیں لڑیں ۔ جیسا کہ خوارج نے کیا تھا۔ان کی تلوار سب سے پہلی تلوار تھ جو کہ مسلمانوں کی جماعت پر چلائی گئی۔ ان [حامیان علی رضی اللہ عنہ]میں سے کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم پر طعنہ زنی کرتے تھے؛ جیسا کہ روافض کا شیوہ ہے۔زنادقہ ہمیشہ ان ہی کی آڑ لیتے رہے؛ جیسا کہ غالیہ اور نصیریہ اور ان کے علاوہ قرامطہ ؛ باطنیہ اور اسماعیلیہ کے علاوہ دیگر فرقوں کا طریقہ کار رہا ہے۔ یہ لوگ ہر فتنہ کی جڑ رہے ہیں ۔ جب کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہر خیر و بنیاد کی اصل اور بنیاد رہے ہیں ۔ وہ اسلام میں ہدایت و رحمت کا سبب تھے۔ [شیعہ کی کفار اور مرتدین سے موالات ] یہ وجہ ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ شیعہ ہمیشہ اعدائے اسلام مرتدین کی مدد و نصرت میں پیش پیش رہے ہیں ۔ جیسا کہ اتباع مسیلمہ کذاب بنو حنیفہ ؛ شیعہ آج تک انہیں مظلوم شمار کرتے چلے آئے ہیں ۔ جیساکہ اس کتاب کے مصنف [ابن مطہر]نے بھی ذکر کیا ہے۔ اور یہ لوگ آج تک ابولؤلؤ کافر مجوسی کی مدد پر کمربستہ رہے ہیں ۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ دعا کرتے رہتے ہیں : یا اللہ!ابو لؤلؤ سے راضی ہو جا؛ اور میرا حشر اس کے ساتھ کرنا۔ اور ان میں سے بعض لوگوں سے ان کی طرف سے مسلط کردہ لڑائیوں کے دوران یہ نعرے لگاتے بھی سنا گیا ہے: ابو لؤلؤ کا انتقام ۔ جیسا کہ اس تصویر میں بھی کرتے نظر آتے ہیں جس میں انہوں نے اپنے تئیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خیالی تصویر بنا کر اسے مشکیزے میں بند کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ بھی اس طرح کے کئی واقعات و احوال ہیں ۔ ابو لؤلؤ کے کافر ہونے پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ وہ مجوسی اور آگ کا پجاری تھا۔ اور حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا غلام تھا۔اور چکیاں بنایا کرتا تھا۔ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ نے اس پر روزانہ کا چار درہم خراج مقرر کر رکھا تھا۔ اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ مسلمان اہل ذمہ کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں ۔ کیونکہ وہ دیکھا کرتا تھا کہ ان کے قیدی مدینہ طیبہ لائے جاتے تھے۔ یہ بات اس کے دل میں باقی رہ گئی تھی۔ یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے عرض کی تھی کہ ان کے آقا سے اس خراج کے بارے میں بات کی جائے۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کچھ توقف کیا۔ آپ کی نیت میں تھا کہ آپ اس سے بات کریں گے۔ پس اس آدمی نے اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ بغض کی وجہ سے مجوس اور مجوسیت کی محبت میں کفار کا انتقام لینے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا۔کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کے شہر فتح کئے۔ان کے سردار قتل کئے اور ان کے اموال لوگوں میں تقسیم کئے۔ بالکل ویسے ہی جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے متعلق خبردی تھی۔ صحیح حدیث میں ہے؛ فرمایا: ’’جب کسری ہلاک ہوگیا تو اس کے بعد کوئی کسری نہیں ہوگا اورجب قیصر بھی ہلاک ہوجائے گا اور اس کے بعد کوئی قیصر نہ ہوگا اوراس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! بلا شبہ تم لوگ قیصر و کسری کے
Flag Counter