Maktaba Wahhabi

64 - 702
شکار رہے گا۔ کلیات و جزئیات میں جہالت اورظلم کی وجہ سے بہت بڑا فساد اور شر پیدا ہوتا ہے ۔ قاعدہ جامعہ: عدل و انصاف کے تقاضوں کو ملحوظ رکھنے کے لیے بنی نوع انسان کے پاس کچھ قواعد کلیہ ہوتے ہیں جن پر رکھ کر جزئیات کو جانچا پرکھا جاتا ہے ۔ پھر جزئیات کو پہچانا جاتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان جزئیات سے بے بہرہ رہتا اور کلیات کے بارے میں جہل و ظلم کا شکار ہو جاتا۔ جس سے عظیم فساد رونما ہوتا ۔ علماء نے مجتہدین کے خطاء و صواب اور گنہگار یا عدم گنہگارہونے کے بارے میں گفتگو کی ہے۔ اس ضمن میں بیش قیمت قواعد نافعہ بیان کرتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ : لوگوں نے اصولی اور فروعی مسائل میں مجتہدین کو بجانب حق یا خطا پر کہنے میں بڑی لے دے کی ہے ؛ بعض نے انہیں گنہگار ٹھہرایا ہے ؛ اور بعض نے عدم گناہ کا کہا ہے ۔ مگر ہم اس بارے میں انتہائی جامع اورفائدہ مند اصولوں کا ذکر کرتے ہیں : اصل اوّل: ....کیا مجتہد کے لیے یہ ممکن ہے کہ اپنے اجتہاد کے بل بوتے پر معلوم کرلے کہ فلاں متنازع مسئلہ حق ہے؟ اور اگر یہ ممکن نہیں اور مجتہد انتہائی سعی و جہد کے باوجود حق کو نہ پاسکے اور کہے کہ میرے علم کی حد تک یہ حق ہے، حالانکہ وہ حق نہ ہو تو کیا اسے سزا دی جائے گی یا نہیں ؟ یہ اس مسئلہ کی اساس و اصل ہے ۔ علماء کے اس میں تین اقوال ہیں ۔ ہر قول کو اہل علم مناظرین کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ پہلا قول: ....اﷲتعالیٰ نے ہر مسئلہ میں حق کی ایک دلیل مقرر کر رکھی ہے۔ جو شخص کما حقہ جہد و کاوش سے کام لیتا ہے وہ حق کو پالیتا ہے۔اور جو شخص کسی اصولی یا فروعی مسئلہ میں حق کو معلوم کرنے سے قاصر رہتا ہے؛ اس کی وجہ اس کا تساہل و تغافل ہے۔ قدریہ و معتزلہ یہی نظریہ رکھتے ہیں ۔ ان کے علاوہ متکلمین کا ایک گروہ بھی اسی کا قائل ہے۔ پھر یہ لوگ کہتے ہیں کہ: علمی مسائل پر قطعی دلائل موجود ہوتے ہیں جن سے ان کی پہچان ہو جاتی ہے۔ پس جو کوئی بھی ان ادلہ کو نہ جانتا ہو؛ تو اس کے لیے طلب حق میں اپنی سعت بروئے کار لانا ممکن نہیں ؛ پس وہ گنہگار ہوگا۔ شرعی عملی مسائل کے سلسلہ میں ان کے دو مذہب ہیں : پہلا مذہب : یہ بھی شرعی علمی مسائل کی طرح ہیں ۔ اور بیشک ہر ایک مسئلہ پر ایک قطعی دلیل موجود ہوتی ہے ۔ اوراس کی مخالفت کرنے والا گنہگار ہوتا ہے۔ اوریہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں : اصلی اور فرعی ہر ایک مسئلہ میں ایک ہی فریق حق پر ہوتا ہے۔اور فریق برحق؍درست والے کے علاوہ باقی لوگ گنہگار ہوتے ہیں کیونکہ وہ خطا پر ہوتے ہیں ۔ ان کے نزدیک خطأ اور گناہ دونوں آپس میں ایک دوسرے کو لازم و ملزوم ہیں ۔ یہ قول بشر المریسی اور بہت سارے بغدادی معتزلہ کا ہے۔ بیشک عملی شرعی مسائل پر اگرچہ قطعی دلائل موجود ہوں ؛ توپھر بیشک علمی مسائل کی طرح ان میں بھی مخالفت کرنے والا خطاکار اور گنہگار ہوگا۔ اور اگر اس پر کوئی قطعی دلائل نہ ہو تو اس کے باطن میں اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم نہیں ہوگا۔ ہر مجتہد کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم اس کے اجتہاد کے انجام کے اعتبار سے ہوگا۔ یہ لوگ پہلے قول والوں سے اس حدتک متفق ہیں کہ خطا اور گناہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں ۔ اور بیشک ہر خطاکار گنہگار ہوگا۔ لیکن اجتہاد مسائل میں انہوں نے مخالفت کی
Flag Counter