Maktaba Wahhabi

651 - 702
جب کسی انسان کو نسبی شرافت بھی حاصل ہو تو اس سے لوگوں میں قبول حق میں مدد ملتی ہے۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہمابہت بڑے عالم تھے ‘اور امت یہ بات جانتی تھی۔ اس لیے ان سے فائدہ حاصل کیا اور عوام و خواص میں ان کا ذکر ہونے لگا۔ ایسے ہی امام شافعی رحمہ اللہ کے پاس نفع بخش علم و فقہ تھا ؛ لوگوں نے اس سے فائدہ اٹھایا‘ اوران کانام علم فقہ کے میدان میں ایک روشن ستارہ ہے۔ لیکن جب انسان دیکھتا ہے کہ اس کا مقصود کسی جگہ پر نہیں مل رہا ‘تو وہ وہاں اس چیز کا طلب گار نہیں بنتا۔کیا آپ دیکھتے نہیں کہ اگر کسی انسان کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بہت بڑا طبیب ہے ‘ یا بہت بڑا نحوی ہے ‘ اور اس کی ایسی عظمت بیان کی جائے کہ اس سے علم حاصل کرنے کے لیے اہل طب اور نحوی حضرات حاضر ہوجائیں ۔ مگروہ دیکھیں کہ انہیں طب و نحو میں جس چیز کی ضرورت ہے ‘ وہ اس آدمی کے پاس نہیں مل رہی ؛ تووہ اس سے منہ موڑ کر چلے جائیں گے۔ فقط جاہل لوگوں کا دعوی کرنا اور اس کی تعظیم بجالانا انہیں کوئی فائدہ نہ دے گا۔ امامیہ نے معتزلہ سے یہ عقائدلیے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پراقدار ‘ تمکین اور لطف واجب ہے جن سے مکلف اصلاح کے قریب تر اور فساد سے دور ہو تا ہے ۔باوجودیکہ اسے دونوں حالتوں [اصلاح اور فساد] پر قدرت حاصل ہوتی ہے۔ پھر [اس کے بعد شیعہ حضرات ] کہنے لگے : ’’ امامت واجب ہے۔ بلکہ ان کے نزدیک امامت کا وجوب نبوت کے وجوب سے بڑھ کر ہے ۔کیونکہ [احکام شرعی ] کی تکلیف میں اس سے مہربانی حاصل ہوتی ہے۔ نیز یہ بھی کہتے ہیں : ہم عادات اور تجربات کی روشنی میں یہ بات یقینی طور پر جانتے ہیں کہ جب کسی جماعت کا کوئی با ہیبت امیر ہو‘ لوگ جس سے ڈرتے ہوں ‘ اور اس کا حکم لوگوں پر چلتا ہو؛ تو اس امیر کی موجودگی میں لوگ اصلاح کے قریب تر اور فساد سے بعید ہوتے ہیں ۔اگر ان کا کوئی امیر نہ ہو‘ تو لوگوں میں دنگا و فساد اور قتل و غارت واقع ہوتے ہیں ۔ اس وقت لوگ اصلاح سے بعید اور فساد کے قریب تر ہوتے ہیں ۔ یہ حالت عقلی طور پر معلوم شدہ ہے ۔اس کا انکار صرف وہی انسان کرسکتاہے جو عادات سے جاہل ہو۔ اور کسی قاعدہ کا تسلسل کے ساتھ جاری رہنا عقلی طور پر معلوم نہیں ہوسکا۔ توپھر کہتے ہیں : جب ایسا ہونا تکلیف شرعی میں مہربانی ہے تو اس کا وجوب لازم آتا ہے ۔ پھر ا س کے بعد عصمت ِ امام کی باقی صفات شمار کی ہیں ۔ [اپنے آپ سے سوال]: ان میں سے کچھ لوگوں نے اپنے آپ سے سوال کیا : جب تم کہتے ہو کہ امام کا ہونا اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم اور مہربانی ہے ‘ اور امام تم سے غائب ہے ‘ تو اس غیب کی وجہ سے تمہیں کونسی مہربانی حاصل ہوئی؟ اگر امام کی غیبت کے ساتھ لطف حاصل نہیں ہوسکتا تو تکلیف جائز ہوئی۔تو اس سے امام کے وجود سے دین میں لطف و مہربانی ہونے کا نظریہ باطل ہوا۔ تو پھر امام معصوم ہونے کے عقیدہ کی کوئی اہمیت باقی نہ رہی۔ پھر خود ہی اس سوال کے جواب میں کہنے لگے:’’ بیشک یہ لطف و مہربانی ان عارفین کو امام کے غائب ہونے کی
Flag Counter