Maktaba Wahhabi

704 - 702
نے انسان کے کلام میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث روایت اور بیان کرنے کی وجہ سے جو قوت نافعہ رکھی وہ کافی و شافی ہے ۔ خصوصاً جب کہ اﷲتعالیٰ نے قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ہے، بنا بریں کلام پاک تبدیل و تغییر سے مامون و مصؤن ہے۔ خلاصہ کلام ! شیعہ کا یہ دعوی کا دین اسلام کی حفاظت اور اس کا فہم صرف ایک معین شخص کے ذریعہ ہی ممکن ہے ؛ یہ اصول دین میں بہت بڑا فساد اور بگاڑ ہے۔ اس قول کے لوازم کو جانتے ہوئے صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو پکا زندیق اور ملحد ہو۔ جس کا مقصد دین اسلام کی بنیادوں پر وار کرنا ہو۔ اور اس قول کو لوگوں میں صرف جاہل اور گمراہ انسان ہی پھیلا سکتا ہے[ جو کہ نام نہاد محبت آل بیت کے نعرہ کا شکار ہوکر ان کے دام ِ فریب میں پھنس جائے ]۔ بارھویں وجہ:....ا ن سے کہا جائے گا: پھر یہ بات ہر کس و ناکس کو معلوم ہے کہ اکثر مسلمانوں کو قرآن و حدیث کا علم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وساطت کے بغیر حاصل ہوا۔ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے جب بلاد و امصار کو فتح کیا تو وہاں ایسے معلم صحابہ بھیجے، جنھوں نے لوگوں کو دینی و فقہی مسائل کی تعلیم دی۔ پھر ان لوگوں کی بدولت باقی مسلمانوں نے علم دین سیکھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے علم دین کو اسی حد تک پہنچایا جیسے حضرت عبد اﷲ بن مسعود، معاذ بن جبل ،ابی بن کعب اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم نے پہنچایا ۔یہ بات سب کو معلوم ہے۔اگر ہم شیعہ کا دعوی مان لیں کہ دین صرف حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ذریعہ سے ہی پہنچ سکتا ہے تو [تمام بلاد وامصار کے ] عوام الناس کا دین باطل ٹھہرے گا۔[کیونکہ ان تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کی روایات نہیں پہنچی؛]یا بہت کم روایات پہنچی ہیں جن سے دین کا مقصد حال نہیں ہوسکتا۔ او ریہ روایات بھی متواتر نہیں ہیں ۔ اور ہمارے زمانے میں کوئی معصوم بھی نہیں ہے جس کی طرف رجوع کرنا ممکن ہو۔ لا حول و لا قوۃ إلا باللّٰہ ؛ ما شاء اللّٰہ ! روافض کی جہالت اور حماقت کے کیا کہنے؟ فصل:....امام معصوم کا تعین قدرت الٰہی کی دلیل [اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’چوتھی بات: اﷲتعالیٰ نصب امام کی قدرت سے بہرہ ور ہے اور اس میں کچھ خرابی بھی نہیں ۔ بلکہ دنیا کی ضرورت اس کی داعی ہے،اور امام نصب کرنا واجب ہے۔ جب بالاجماع حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور میں یہ اوصاف موجود ہی نہیں تو صرف وہی خلیفہ برحق ہوں گے۔اللہ تعالیٰ کا اس قدرت سے بہرہ ور ہونا صاف ظاہر ہے ؛ اور دنیا کی ضرورت وحاجت کا ہونا بھی ظاہر ہے ؛ اس لیے کہ ہم عالم میں اختلاف کے واقع ہونے کو پہلے بیان کرچکے ہیں ۔ اس سے خرابی کی نفی بھی ظاہر ہے ؛ اس لیے کہ خرابی تو امام کے نہ ہونے کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہے۔ جب کہ امام کو نصب کرنے کا وجوب اس لیے ہے کہ جب قدرت بھی ثابت ہوگئی ؛ اور دنیا کی ضرورت بھی ثابت ہوگئی؛ اور خرابی کی نفی بھی ہوگئی تو اب امام کو متعین کرنا ہی واجب ہوگیا ۔‘‘ [اشکال ختم ہوا]۔ [جواب]: یہ محض تکرار ہے ہم قبل ازیں بیان کر چکے ہیں ؛ اور اس کا جواب دیا جاچکا ہے ۔اس لیے کہ اس کا پہلا
Flag Counter