Maktaba Wahhabi

710 - 702
پہنچے گی یا پھر خبر واحد سے ؟ اور جو لوگ امام معصوم سے غائب ہیں ان تک شریعت کیسے پہنچے گی؟ کیا واسطوں کے بغیر کسی رسول کے ذریعہ سے ان تک پہنچے گی؟ خلاصہ کلام ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امام معصوم کے وجود میں کوئی مصلحت نہیں ہے۔ ہر مصلحت اس امام کے بغیر بھی حاصل ہوسکتی ہے ۔ اس امام معصوم کا عقیدہ و نظریہ رکھنے میں اتنی بڑی خرابی ہے جو کہ اس کے نہ ہونے سے ہی ختم ہوسکتی ہے ۔ پس اس بنا پر شیعہ کا یہ کہنا کہ :’’ حاجت امام کی داعیہ ہے ۔‘‘ ایک باطل اور بے اصل قول ہے۔ اور ایسے ہی یہ کہنا کہ : ’’ امام کے نہ ہونے میں خرابی ہے ‘‘ یہ بھی بے بنیاد اورممنوع نظریہ و عقیدہ ہے ۔ بلکہ حقیقت میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔خرابی تو امام کے ساتھ موجود ہے۔اور اس کے ساتھ کوئی منفعت نہیں ہے۔ جب اس امام کا صرف اعتقاد رکھنے سے اتنی بڑی خرابی پیدا ہوئی ہے تو پھر اگر امام صاحب خود موجود ہوتا تو کیا حال ہوتا ؟ [عصمت امام کی ایک اور اندھی بہری دلیل]: [اشکال ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ پانچویں وجہ : امام کا اپنی رعیت سے افضل ہونا ضروری ہے، یہ ایک بدیہی بات ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فاضل دوراں ویکتائے زمان تھے، لہٰذا وہی امام ہوں گے اس لیے کہ فاضل کی موجودگی میں مفضول کا تقدم عقلاً و شرعاً قبیح ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اَفَمَنْ یَّہْدِیْٓ اِلَی الْحَقِّ اَحَقُّ اَنْ یُّتَّبَعَ اَمَّنْ لَّا یَہِدِّیْٓ اِلَّآ اَنْ یُّہْدٰی فَمَالَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ﴾ [یونس۳۵] ’’ پھر آیا جو شخص حق کا راستہ بتاتا ہو وہ زیادہ اتباع کے لائق ہے یا وہ شخص جس کو بغیر بتائے خود ہی راستہ نہ سوجھے پس تم کو کیا ہوگیا ہے کہ تم کیسے فیصلے کرتے ہو ۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب ]:اس کے جواب میں کئی نکات ہیں : پہلی بات : مصنف کا قائم کردہ دوسرا مقدمہ ممنوع ہے۔ ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے زمانے میں سب سے افضل تھے۔[1]بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہمااس امت کے افضل ترین لوگ تھے۔ جیسا کہ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے لوگوں سے بھی ثابت ہے۔ اس کا تفصیلی جواب آگے آئیگا ۔ [اور پھلے بھی گزرچکاہے ]۔ دوسری بات :ہمارے اصحاب اور دوسرے لوگوں میں سے جمہور سب کا یہی کہنا ہے کہ امکان موجود ہونے کی صورت میں افضل انسان کو والی بنانا واجب ہے ۔ لیکن اس رافضی مصنف نے اپنے اس مقدمہ پر کوئی دلیل پیش نہیں کی۔اس میں بہت سارے علمائے کرام رحمہم اللہ کے مابین اختلاف بھی ہے۔ جب کہ مذکورہ بالا آیت میں اس رافضی کے
Flag Counter