Maktaba Wahhabi

95 - 702
کرکے نماز پڑھتے رہے؛ حتی کہ انہیں قبلہ اول منسوخ ہونے کی اطلاع مل گئی؛ مگر ان میں سے کسی ایک کو اپنی نماز دوہرانے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ یہ اس اصول کے مطابق ہے جس پر اسلاف اور جمہور کاربند تھے۔ سلف صالحین و جمہور کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ کسی کواس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ لہٰذا وجوب قدرت کے ساتھ مشروط ہے اور سزاصرف ترک مامور اور فعل محظور کی صورت میں حجت قائم ہونے کے بعد ہی ملے گی۔ فصل:....خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ پر تنقید کی مذمت خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ پر تنقید کی مذمت ؛ ان کی عفت و آبرو پر سخت کلامی کی ممانعت۔ ہم قبل ازیں لوگوں کے لیے وعد و عید اور ثواب و عقاب کے بارے میں یہ بیان کر چکے ہیں کہ گناہ گار سے جہنم کی سزا دس اسباب کی بنا پر معاف کی جا سکتی ہے۔ جب سزا کی معافی کا یہ حکم امت کے سب گناہ گاروں کے لیے ہے خواہ وہ مجتہد ہوں یا کوئی اور گناہ گار۔ تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سزا کیوں کر معاف نہیں کی جائے گی ؟ اس پر طرہ یہ کہ جب بعد میں آنے والے مجتہدین سے ذم و عقاب کا ازالہ ممکن ہے تو سابقین اوّلین، مہاجرین و انصار رضی اللہ عنہم بالاولیٰ اس رعایت کا استحقاق رکھتے ہیں ۔ ہم اس موضوع پر کھل کر گفتگو کرنا چاہتے ہیں ۔اور ادنی و اعلی ہر ایک کے متعلق آگاہ کرنا چاہتے ہیں ۔پس ہم کہتے ہیں : یہ امر قابل غور ہے کہ روافض وغیرہ جوکہ خلفائے راشدین و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی گستاخی کا ارتکاب کرتے ہیں یہ ان کی ناموس و آبرو پر حملہ ہے۔ لہٰذا اس کا تعلق حقوق اﷲ و حقوق العباد دونوں سے ہے۔ کیونکہ اس پر اللہ تعالیٰ کے لیے دوستی اور دشمنی؛اورمحبت اور بغض کے احکام مرتب ہوتے ہیں ۔ یہ ایک بدیہی بات ہے کہ جب ہم صحابہ کے سوا سلاطین و ملوک اور علمائے دین و مشائخ؛ جیسے مختلف علاقوں کے مختلف بادشاہوں کو موضوع سخن بناتے ہیں تو اس وقت واجب ہوتا ہے کہ جہل و ظلم کے باوجود علم و عدل کے تقاضوں کو ملحوظ رکھا جائے، اس لیے کہ عدل ہر شخص کے لیے ہر حال میں ضروری ہے؛ اور ظلم مطلقاً حرام ہے، کسی بھی صورت میں مباح نہیں ۔ جیسے فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿َو لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی﴾ (المائدہ:۸) ’’کسی قوم کی عداوت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کردے کہ تم عدل نہ کر سکو عدل کیجیے کیونکہ وہ تقویٰ سے قریب تر ہے۔‘‘ یہ آیت کفار کے بغض کی وجہ سے نازل ہوئی۔ یہ مامور بہ بغض ہے۔ پس جو بغض حکم الٰہی کے مطابق ضروری ہے، جب اس میں بھی مبغوض پر ظلم کرنے کی ممانعت ہے؛ تو تاویل یا شبہ کی آڑ لینے والا مسلمان اس بات کا زیادہ حق دار ہے
Flag Counter