Maktaba Wahhabi

104 - 111
اللہ تعالیٰ نے نہایت اہتمام کے ساتھ اُمت پر یہ واضح کیا ہے کہ ان کے ہاتھ سے عدل و انصاف کا دامن کسی حال میں بھی نہیں چھوٹنا چاہیے، چاہے معاملہ کسی ایسے گروہ ہی کا کیوں نہ ہو جس نے ان پر ظلم و زیادتی کی اور ان کے ساتھ نا انصافی کا معاملہ کیا ہو ... ذیل کی سطور میں ہم نے اسی جذبے کے ساتھ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔'' (ص۲۸۵) ''لیکن (مسلمانوں کو) موجودہ مسجد اقصیٰ کے علاوہ پورے احاطۂ ہیکل کی تولیت اور تصرف کا حق جتانے اور یہودیوں کے حق کی کلیتاً نفی کرنے کا دینی و تاریخی لحاظ سے نہ کوئی جواز ہے اور نہ ضرورت۔'' (ص۲۸۴) یہاں سوچنے کی بات یہ ہے(اور مفتی عبد الواحد صاحب نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے) کہ حضرت سلیمان نے بیت المقدس میں مسجد یا عبادت گاہ بنائی تھی، ان کے دور کے بنی اسرائیل اور یہود اس کی تولیت کے حقدار تھے،کیونکہ حضرت سلیمان نبی بھی تھے اور مسلمان بھی تھے۔ان کے دورکے لوگ بھی مسلمان تھے، لیکن جب یہود نے بعض انبیا کو قتل کیا اور کرایا اور حضرت عیسیٰ کی نبوت و رسالت کا انکار کیا تو وہ کافر ہو گئے اور جو احاطہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے وقف تھا، وہ مسلمانوں کے قبضے میں آیا۔یہود نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا بھی انکار کیا اور کافر رہے اور ان پر خدا کا بغض ہوا اور لعنت ہوئی اور ذلت ہوئی۔جس قوم پر خدا کی لعنت اور بغض ہو، اس کے توبہ کیے بغیر کافر رہتے ہوئے اس بارے میں عمار صاحب کا یہ کہنا ''کہ خدا تعالیٰ نے ان سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہم تم پر رحم کریں گے اور تم کو بیت المقدس میں داخل کریں گے ''کیسا عجیب وغریب دعویٰ ہے، لیکن حیرت ہے کہ عمار خان صاحب بڑے شد ومد کے ساتھ یہ دعویٰ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''قرانِ مجید واقعہ اِسرا کے بعد بھی اس بات کا امکان تسلیم کرتا ہے کہ اللہ کی رحمت سے یہود کو (یہودی رہتے ہوئے۔ناقل) دوبارہ اپنے مرکز عبادت کی بازیابی اور اس میں سلسلۂ عبادت کے احیا کا موقع ملے۔اگرچہ یہ موقع بھی پہلے مواقع کی طرح اطاعت اور حسنِ کردار کے ساتھ مشروط ہو گا۔'' (ص۳۰۰)
Flag Counter