Maktaba Wahhabi

0 - 5761
Book Name سنن نسائی
Writer ابو عبداللہ احمد بن شعیب بن علی بن سنان النسائی
Publisher دارالسلام
Publish Year 2011ء الموافق ۱۴۳۲ھ
Translator حافظ محمد امین
Volume
Number of Pages
Introduction نام و نسب اور کنیت آپ کا نام احمد اور کنیت ابوعبدالرحمن ہے، سلسلہ نسب یہ ہے: احمد بن شعیب بن علی بن سنان بن بحر بن دینار بن نسائی الخراسانی۔ (التذکرہ:۲/ ۲۴۱، طبقات الشافعیہ۲/۸۳) ولادت آپ کے سن پیدائش میں اختلاف ہے، بعض نے ( ۲۱۴ھ ) اور بعض نے ( ۲۱۵ھ ) بیان کیا ہے۔ (التذکرہ، التہذیب، طبقات الشافعیہ) خود امام نسائی سے منقول ہے کہ میری پیدائش اندازاً ( ۲۱۵ھ ) کی ہے، اس لیے کہ ( ۲۳۰ھ) میں،میں نے پہلا سفر قتیبہ بن سعید کے لیے کیا اور ان کے پاس ایک سال دو مہینے اقامت کی۔ (تہذیب الکمال ۱/۳۳۸، سیر أعلام النبلاء ۱۴/۱۲۵) ابن یونس مصری کہتے ہیں: نسائی بہت پہلے مصر آئے، وہاں پر علماء سے احادیث لکھیں، اور طلبہ نے آپ سے احادیث لکھیں، آپ امام حدیث، ثقہ، ثبت اور حافظ حدیث تھے، مصر سے ماہ ذی القعدۃ ( ۳۰۲ھ ) میں نکلے اور دوشنبہ کے دن ( ۱۳ ) صفر ( ۳۰۳ھ ) فلسطین میں آپ کی وفات ہوئی۔ (تہذیب الکمال، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۱، السیر۱۴/۱۳۳، الحطۃ فی ذکر الصحاح الستۃ۴۵۸) امام ذہبی: امام نسائی کی عمر ( ۸۸ ) سال تھی، ( ۲۱۵ھ ) کی تاریخ پیدائش کی بنا پر یہ ایک اندازہ ہے، اکثر علماء نے امام نسائی کی عمر ( ۸۸ ) سال بتائی ہے۔ (البدایۃ والنہایۃ ۱۱/۱۲۴، توضیح المشتبہ لابن ناصر الدین الدمشقی ۵/۱۸، تہذیب التہذیب ۱/۳۶، ۳۷، شذرات الذہب) اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ بعض لوگوں نے امام نسائی کی پیدائش ( ۲۲۵ھ ) لکھی ہے، جو صحیح نہیں ہے، چنانچہ ابن العماد نے امام نسائی کی وفات (۳۰۳ھ ) ذکر کرتے ہوئے کہا: «وله ثمان وثمانون سنة.» اس لحاظ سے بعض مورخین کا یہ کہنا کہ نسائی کی پیدائش (۲۲۵ھ) میں ہوئی صحیح نہیں ہے۔ (شذرا ت الذہب) وطن آپ کی پیدائش خراسان کے مشہور شہر نساء میں ہوئی جو صرف نون اور سین کی فتح کے ساتھ اور ہمزہ کے کسر اور مد کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، کبھی عرب اس ہمزہ کو واو بدل کر نسبت کرتے وقت «نسوی» بھی کہا کرتے ہیں اور قیاس بھی یہی چاہتا ہے لیکن مشہور نسائی ہے۔ لیکن واضح رہے کہ امام نسائی نے مصر میں سکونت اختیار کر لی تھی۔ طلب حدیث کے لیے بلاد اسلامیہ کا سفر امام نسائی نے پہلے اپنے شہر کے اساتذہ سے علم حاصل کیا، پھر علمی مراکز کا سفر کیا، سب سے پہلے آپ نے خراسان میں بلخ کے ایک شہر بغلان ( ۲۳۰ھ ) کا رخ کیا، وہاں قتیبہ بن سعید کے پاس ایک سال دو ماہ طلب علم میں گزارا، اور ان سے بکثرت احادیث روایت کیں، نیز طالبان حدیث کے نقش قدم پر چلتے ہوئے، طلب حدیث کے لیے دور دراز علاقوں کا قصد کیا، حجاز ( مکہ و مدینہ ) عراق ( کوفہ و بصرہ ) شام، جزیرہ، خراسان اور سرحدی علاقوں کے مراکز حدیث جن کو «ثغور» ( سرحدی علاقے ) کہا جاتا ہے وغیرہ شہروں کا سفر کیا، اور مصر میں سکونت اختیار کی۔ (طبقات الشافعیہ ۸۴، تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۹۸،مقدمہ تحفۃ: ۶۶) مورخین نے آپ کے علمی اسفار کا ذکر کیا ہے، حافظ ابن کثیر آپ کے علمی اسفار کے بارے میں لکھتے ہیں: «رحل إلى الآفاق واشتغل بسماع الحديث والاجتماع بالأئمة الحذاق» (البدایہ: ۱۲۳) یعنی نسائی نے دور دراز کا سفر کیا، سماع حدیث میں وقت گزارا اور ماہر ائمہ سے ملاقاتیں کیں۔ اساتذہ امام نسائی نے علماء کی ایک بڑی جماعت سے علم حدیث حاصل کیا، حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ امام نسائی نے بے شمار لوگوں سے احادیث سنیں (تہذیب التہذیب) چند اہم ائمہ اور رواۃ حدیث کا ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے: (1) ابراہیم بن یعقوب الجوزجانی۔ (2) ابوداؤد سلیمان بن اشعث السجستانی۔ (3) احمد بن بکار۔ (4) احمد بن حنبل۔ (5) اسحاق بن راہویہ۔ (6) الحارث بن مسکین۔ (7) زیاد بن یحیی الحسّائی النکری البصری۔ (8) عباس بن عبدالعظیم العنبری۔ (9) عبداللہ بن احمد بن حنبل۔ (10) عبداللہ بن سعید الکندی۔ (11) علی بن حجر۔ (12) علی بن خشرم۔ (13) عمرو بن بن علی الفلاس۔ (14) عمرو بن زرارہ، (15) قتیبہ بن سعید، (16) محمد بن اسماعیل بخاری ۔ وضاحت ۱؎: حافظ مزی کی تحقیق میں امام نسائی کا سماع امام بخاری سے نہیں ہے، وہ بعض شیوخ کے واسطے سے بخاری سے روایت کرتے ہیں (تہذیب الکمال ۲۴/۴۳۷) لیکن صحیح اور تحقیقی بات یہی ہے کہ امام نسائی امام بخاری کے شاگرد ہیں، حافظ ابن حجر نے مقدمۃ الفتح میں لکھا ہے کہ بخاری سے احادیث روایت کرنے والے بڑے حفاظ حدیث مسلم، نسائی، ترمذی، ابوالفضل احمد بن سلمہ اور ابن خزیمہ ہیں ( ۴۹۲ )، نیز تہذیب التہذیب میں امام بخاری کے ترجمے کے آخر میں (۹/۵۵) اور ایسے ہی محمد بن اسماعیل عن حفص بن عمر بن الحارث کے ترجمے میں (۹/۶۳) یہ مسئلہ صاف کر دیا ہے کہ بلا شک و شبہ امام بخاری نسائی کے استاذ ہیں، اور حافظ مزی کی بات صحیح نہیں ہے۔ (ملاحظہ ہو: سیرۃ البخاری ۲/۷۴۸) (17) محمد بن المثنی۔ (18) محمد بن بشار۔ (19) محمد عبدالاعلی۔ (20) یعقوب بن ابراہیم الدورقی، (21) ہشام بن عمار۔ ۲ (2) ہناد بن السری، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ تلامذہ امام نسائی سے علماء اور رواۃ کی ایک بڑی تعداد نے علم حاصل کیا، اور آپ سے احادیث روایت کیں، جن کے بارے میں حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ بے شمار لوگ ہیں (تہذیب التہذیب) امام نسائی علم و دین کی امامت کی شہرت کے ساتھ معمر شیخ الحدیث تھے، اس لیے آپ کے علوم وفنون سے استفادہ کے ساتھ ساتھ طلبہ آپ کے پاس اس واسطے بھی بکثرت آتے تھے تاکہ ان کی سند عالی ہو جائے، اس لیے کہ قتیبہ بن سعید اور ان کے طبقہ سے امام نسائی نے احادیث روایت کی تھیں اور تیسری صدی کے خاتمے اور چوتھی صدی کی ابتداء میں اس سند عالی کا کوئی راوی آپ کے علاوہ نہ پایا جاتا تھا، اس لیے رواۃ نے آپ سے بڑھ چڑھ کر احادیث روایت کیں، مشاہیر رواۃ تلامذہ کا تذکرہ درج ذیل ہے۔ سنن نسائی کے رواۃ امام نسائی کے تلامذہ میں سے جن لوگوں نے آپ سے سنن کی روایت کی ہے، حافظ ابن حجر نے ان میں سے دس رواۃ کا تذکرہ کیا ہے، جو حسب ذیل ہیں: (1) عبدالکریم بن احمد بن شعیب النسائی۔ (ت:۳۴۴ھ): عبداللہ بن محمد بن اسد جہنی، ایوب بن حسین قاضی ثغر اور خصیب بن عبداللہ نے عبدالکریم سے سنن روایت کی۔ ابن خیر کہتے ہیں: ابومحمد بن اسد کے پاس کتاب الطب (دو جزء میں) تھی جس کی روایت میں وہ ابوموسیٰ عبدالکریم بن احمد بن شعیب نسائی سے منفرد تھے۔ (فہرست ابن خیر ۱۱۳، تہذیب التہذیب ۱/۳۷) ابن خیر فہرست میں لکھتے ہیں کہ ابوعلی غسانی کہتے ہیں: کتاب المجتبیٰ کی روایت نسائی سے سے ان کے لڑکے عبدالکریم اور ولید بن القاسم الصوفی نے کی ہے۔ (فہرست ابن خیر ۱۱۶، ۱۱۷) (2) ابوبکر احمد بن محمد بن اسحاق ابن السنی الدینوری (ت:۳۶۴ھ): حافظ ابن حجر نے ان کو سنن صغری کے رواۃ میں لکھا ہے، لیکن ابن خیر نے اپنی فہرست میں ان کا تذکرہ سنن کے رواۃ میں نہیں کیا ہے، المجتبی یعنی نسائی کی سنن صغریٰ کے یہ راوی ہیں، (سیر أعلام النبلاء ۱۶/۲۵۵) موجودہ سنن صغریٰ کے متد اول نسخے ابن السنی ہی کی سند سے ہیں، واضح رہے کہ تحقیق سے یہ ثابت ہے کہ سنن صغریٰ (المجتبیٰ) کے مؤلف امام نسائی ہی ہیں، ابن السنی صرف اس کے راوی ہیں، بعض لوگوں نے سنن صغریٰ میں ابن السنی کی بعض زیادات اور افادات سے یہ استدلال کیا ہے کہ یہ ابن السنی کی تالیف ہے، جب کہ اہل علم کے یہاں یہ بات معروف و مشہور ہے کہ رواۃ اپنے شیوخ کی کتابوں میں اضافے کرتے رہے ہیں، مثال کے طور پر مسند احمد، اور فضائل صحابہ میں عبداللہ بن احمد اور قطیعی کی زیادات ہیں، اور سنن ابن ماجہ میں راوی کتاب ابوالحسن القطان کی زیادات ہیں۔ ایک قوی دلیل سنن صغریٰ کی نسائی کی تالیف ہونے کی یہ ہے کہ نسائی نے سنن کبریٰ سے انتخاب کے ساتھ ساتھ سنن صغریٰ میں بہت ساری ایسی احادیث ذکر کی ہیں، جو کبریٰ میں نہیں پائی جاتیں۔ (3) ابوعلی الحسن بن الخضر الاسیوطی (ت:۳۶۱ھ): ابوالحسن علی بن محمد بن خلف القابسی اور ابوالقاسم عبدالرحمن بن محمد بن علی ادفوی نے ان سے سنن کی روایت کی۔ (فہرست ابن خیر ۱۱۲) (4) حسن بن رشیق ابومحمد العسکری (ت:۳۷۰ھ): احمد بن عبدالواحدبن الفضل ابوالبرکات الفراء اور ابوالقاسم حسن بن محمد انباری نے ان سے سنن کی روایت کی۔ (5) ابوالقاسم حمزہ بن محمد بن علی کنانی مصری الحافظ صاحب مجلس البطاقہ (ت: ۳۵۷ھ): ان سے سات رواۃ نے سنن کی روایت کی، ابن خیر کہتے ہیں: ابومحمد عبداللہ بن محمد بن اسد جہنی کی حمزہ سے روایت والے نسخے میں چند اسمائے کتب ایسے ہیں جو ابومحمد اصیلی کی روایت میں نہیں ہیں، ان میں سے مناقب الصحابۃ (۴/جزء)، کتاب النعوت (۱/جزء) کتاب البیعۃ (۱/جزء) کتاب ثواب القرآن (۱/جزء) کتاب التعبیر (۱/جزء) کتاب التفسیر (۵/جزء) ہیں، اور ان کتابوں کی قاضی حمزہ سے روایت ابوعبداللہ محمد بن احمد بن یحیی بن مفرج اور ابوالقاسم احمد بن محمد بن یوسف المعافری نے کی ہے، اور یہ دونوں رواۃ محمد بن اسد کے ساتھی ہیں، محمد بن قاسم نے بھی ان کتابوں کی روایت نہیں کی ہے، اور نہ ہی ابوبکر بن الاحمر نے، ہاں ابن قاسم کے پاس کتاب الاستعاذۃ اور فضائل علی بن ابی طالب ان سے مستثنیٰ ہیں، ابن خیر مزید کہتے ہیں: اس تصنیف کے علاوہ مجھے ابومحمد بن یربوع کے خط سے کتاب الایمان وکتاب الصلح ملی ہے، کتاب الإیمان بروایت «ابوعلی حسین بن محمد الغسانی عن ابی عمر ابن عبدالبر عن أبی القاسم أحمد بن فتح التاجر عن حمزۃ بن محمد کنانی» ہے، اور ابوعلی الغسانی بھی اسے اس سند سے روایت کرتے ہیں: «ابومروان عبدالملک بن زیادۃ اللہ التمیمی عن أبی إسحاق إبراہیم بن سعید بن عبداللہ الحبال عن أبی الفرج محمد بن عمر الصدفی عن حمزۃ الکنانی فی رجب ۳۵۴ھ) قال: حدثنا أبوعبدالرحمن النسائي قرائة بلفظه» (فہرست ابن خیر ۱۱۵)، حافظ مزی تحفۃ الأشراف میں ایک سے زیادہ بار کہتے ہیں کہ کتاب المواعظ کی روایت صرف ابوالقاسم حمزہ کنانی نے کی ہے۔ (6) ابوالحسن محمد بن عبدالکریم بن زکریابن حیویہ نیساپوری مصری (ت:۳۶۶ھ): ابوالحسن قابسی فقیہ، ابوالحسن علی بن منیر الخلال اور ابوالحسن علی بن ربیعہ البزار نے ان سے سنن کی روایت کی (فہرست ابن خیر ۱۱۵) حافظ مزی نے تحفۃ الأشراف میں ابن حیویہ کی روایت پر اعتماد کیا ہے۔ (7) محمد بن معاویہ بن الاحمر الاندلسی القرطبی (ت:۳۵۸ھ): (سنن کبری) کے سماع کے بعد اسے لے کر آپ اندلس گئے، اور لوگوں نے یہ کتاب آپ سے سنی، اس وقت سنن کبریٰ کا مطبوعہ نسخہ ابن الاحمر اور ابن سیار کی روایت سے ہے۔ ابن الاحمرسے سنن کی روایت درج ذیل رواۃ نے کی ہے: (1) ابوالولید یونس بن عبداللہ بن مغیث القاضی۔ (2) سعید بن محمد ابوعثمان القلاس۔ (3) محمد بن مروان بن زہر ابوبکر الإیادی۔ (4) عبداللہ بن ربیع بن بنوس ابو محمد (فہرست ابن خیر۱۱۰)۔ (8) محمد بن قاسم بن محمد بن سیار القرطبی الاندلسی، ابوعبداللہ (ت:۳۲۷ھ): ابومحمد عبداللہ بن محمد بن علی الباجی،اور ابوبکرعباس بن اصبغ الحجازی نے ان سے سنن کی روایت کی، ابن خیر کہتے ہیں: محمد بن قاسم اور ابوبکر بن الاحمر کا سماع ایک ہی تھا، محمد بن قاسم کے نسخے میں «فضائل علی وخصائصہ» اور «کتاب الاستعاذۃ» تھیں، یہ دونوں کتابیں ابن الأحمر کے نسخے میں نہیں تھیں۔ (فہرست ابن خیر۱۱۱،۱۱۲، تہذیب الکمال ۱/۳۷) (9) علی بن ابی جعفر احمد بن محمد بن سلامہ ابوالحسن الطحاوی (ت: ۳۵۱ھ) (تہذیب التہذیب ۱/۳۷) (10) ابوبکر احمد بن محمد بن المہندس (ت:۳۸۵ھ): یہ سب نسائی سے سنن کی روایت کرنے والے حضرات ہیں (تہذیب التہذیب ۱/۳۷)، ابن المہندس سے ابوعبداللہ محمد بن عبداللہ بن عابد المعافری نے سنن کی روایت کی۔ (فہرست ابن خیر۱۱۵) سنن نسائی کے ان دس رواۃ کا تذکرہ حافظ ابن حجر نے تہذیب التہذیب میں کیا ہے، لیکن ابوبکر احمد بن محمد بن المہندس کے بارے میں حافظ ذہبی کہتے ہیں: ان کے بارے میں جس نے یہ کہا ہے کہ انہوں نے نسائی سے سنا ہے، اس سے غلطی ہوئی ہے۔ (سیر أعلام النبلاء ۴۶۲) (11) ابوالقاسم مسعود بن علی بن مروان بن الفضل البجّانی: سفر حج کے دوران مصر میں نسائی سے اخذ کیا، اور سنن کی روایت کی۔ (تاریخ ابن الفرضی،رقم الترجمہ ۲۱۴۶، اللباب فی الانساب لابن الاثیر،مادہ: البجانی، والمشتبہ للذہبی ص:۵۱، وتوضیح المشبہ لابن ناصرالدین الدمشقی ۱/۳۷۰، ۳۷۱، و حاشیہ تہذیب الکمال ۱/۳۳۳) (12) ابوہریرۃ بن ابی العصام: احمد بن عبداللہ بن الحسن بن علی العدوی: عبداللہ بن محمد بن اسد جہنی نے ان سے سنن کی روایت کی۔ (فہرست ابن خیر ۱۱۴) (13) احمد بن محمد بن عثمان بن عبدالوہاب بن عرفہ بن ابی التمام، امام جامع مسجد مصر: ابومحمد أصیلی اور حافظ ابوالقاسم خلف بن القاسم نے ان سے سنن کی روایت کی۔ ابن خیر کہتے ہیں: سنن نسائی کی «کتاب الصلح» کی روایت ابوعلی الغسانی ابو شاکر عبدالواحد بن محمد بن موہب الأصیلی سے کرتے ہیں، اور ابوعلی اسے بسند «ابن عبدالبر عن ابی القاسم خلف بن القاسم» روایت کرتے ہیں، پھر أصیلی اور ابوالقاسم دونوں ابوالحسن ابن عرفۃ عن النسائی اسے روایت کرتے ہیں۔ (فہرست ابن خیر ۱۱۳) واضح رہے کہ سنن صغریٰ اور کبریٰ دونوں میں «کتاب الصلح» موجود نہیں ہے، حافظ مزی اور حافظ ابن حجر نے بھی اس کی طرف کہیں اشارہ نہیں کیا ہے۔ (14) ابوعلی حسن بن بدر بن ابی ہلال: ابوالحسن علی بن محمد بن خلف قابسی نے ان سے سنن روایت کی ہے۔ (فہرست ابن خیر ۱۱۲) (15) ابواحمد حسین بن جعفر بن محمد الزیات: خلف بن قاسم بن سہل الدباغ الحافظ نے ان سے سنن کی روایت کی۔ (فہرست ابن خیر ۱۱۴) (16) ابومحمد عبداللہ بن حسن المصری (تحفۃ الأشراف ۱۱۱۳۱) (17) ابوالطیب محمد بن فضل بن عباس (تحفۃ الأشراف ۵۳۱۸) (18) ابوالحسن علی بن الحسن الجرجانی (تاریخ جرجان ۳۱۷) (19) ولید بن القاسم الصوفی: ابن خیر فہرست میں لکھتے ہیں کہ ابوعلی غسانی کہتے ہیں: کتاب المجتبیٰ کی روایت نسائی سے سے ان کے لڑکے عبدالکریم اور ولید بن القاسم الصوفی نے کی ہے۔ (فہرست ابن خیر ۱۱۶، ۱۱۷) مزید بعض مشاہیر تلامذہ درج ذیل ہیں: (20) ابوالقاسم سلیمان بن احمدطبرانی۔ (21) ابوعوانہ یعقوب بن اسحاق الاسفرایینی۔ (22) ابوبشر الدولابی۔ (23) ابوجعفر محمد بن عمرو العقیلی۔ (24) احمد بن محمد بن سلامہ ابوجعفر الطحاوی۔ (25) ابراہیم بن محمد بن صالح۔ (26) ابوعلی حسین بن محمد نیساپوری۔ (27) ابواحمد عبداللہ بن عدی الجرجانی۔ (28) ابوسعید عبدالرحمن بن احمد بن یونس بن عبدالاعلی الصدفی صاحب تاریخ مصر۔ (29) محمد بن سعد السعدی الباوردی۔ (30)- ابوعبداللہ محمد بن یعقوب بن یوسف الشیبانی الحافظ المعروف بالاخرم۔ (31) منصور بن اسماعیل المصری الفقیہ۔ (32) ابوبکر محمد بن احمد بن الحداد الفقیہ۔ مؤخر الذکر ابوبکر بن الحداد ایسے شخص ہیں جنہوں نے امام نسائی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں کی۔ امام دارقطنی فرماتے ہیں: «كان ابن الحداد كثير الحديث ولم يحدث عن غير النسائي وقال: جعلته حجة بيني وبين الله تعالى» ابن الحداد کثیر الحدیث تھے، نسائی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں کی، کہتے ہیں کہ میں نے نسائی کو اپنے اور اللہ کے درمیان حجت بنایا ہے۔ (طبقات الشافعیہ ۲/۱۱۳، تذکرۃ الحفاظ۲/۷۰۰، البدایۃ ۱۱/۱۲۳) حفظ و اتقان اللہ تعالیٰ نے امام نسائی کو غیر معمولی قوت حفظ سے نوازا تھا، یہاں تک کہ ذہبی نے انہیں امام مسلم سے بڑا حافظ حدیث کہا۔ ابن یونس مصری کہتے ہیں: «كان النسائي إماما في الحديث ثقة ثبتا حافظا» (البدایہ ۱۲۳) نسائی امام حدیث، ثقہ، عادل اور حافظ تھے۔ سبکی کہتے ہیں: «سألت شيخنا أبا عبدالله الذهبي الحافظ وسألته أيهما أحفظ مسلم بن الحجاج صاحب الصحيح أو النسائي فقال: النسائي» (طبقات الشافعیہ ۲/۸۴) میں نے اپنے استاذ حافظ ذہبی سے پوچھا کہ صاحب صحیح مسلم بن الحجاج اور نسائی میں سے کون زیادہ حدیث کا حافظ ہے، تو انہوں نے جواب میں کہا: نسائی۔ حافظ سیوطی کہتے ہیں: «الحافظ أحد الحفاظ المتقنين» (حسن المحاضرۃ ۱/۱۴۷) نسائی ایک پختہ حافظ حدیث ہیں۔ ورع و تقویٰ امام نسائی کی عملی زندگی کا اندازہ محمد بن المظفر کے اس قول سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے جسے علامہ ذہبی نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: «سمعت مشايخنا بمصر يصفون اجتهاد النسائي في العبادة بالليل والنهار وأنه خرج إلى الغزو ومع أمير مصر فوصف في شهامته وإقامته السنن الماثورة في فدآء المسلمين واحترازه عن مجالس السلطان الذي خرج معه» (تذکرۃ الحفاظ، تہذیب الکمال ۱/۳۳۴) میں نے مصر میں اپنے شیوخ سے سنا ہے کہ وہ نسائی کے بارے میں کہتے تھے کہ آپ رات دن عبادت میں مشغول رہتے تھے، وہ جنگ میں امیر مصر کے ساتھ نکلے، اور اپنے وقار اور تیزی طبع اور مسلمانوں میں ماثور اور ثابت سنن پر عمل کرنے کرانے میں شہرت حاصل کی، اور نکلے تو سلطان کے ساتھ تھے، لیکن ان کی مجالس سے دور رہتے تھے۔ ابن الاثیر جامع الاصول میں فرماتے ہیں: امام نسائی کے ورع و تقوی پر اس سے بڑھ کر اور کیا دلیل ہو سکتی ہے کہ اپنے استاذ حارث بن مسکین سے انہوں نے جس حالت میں سماع کیا اس کو اسی انداز «قرأۃ علیہ وأنا أسمع» سے بیان کیا، دیگر مشائخ سے اخذ کردہ روایات کی طرح «حدثنا وأخبرنا» کے الفاظ استعمال نہیں کئے، حارث بن مسکین مصر کے منصب قضاء پر فائز تھے، اور نسائی اور ان کے درمیان دوری تھی جس کی وجہ سے ان کی مجلس درس میں حاضر نہ ہو سکے، تو ایسی جگہ چھپ کر حدیث سنتے کہ حارث ان کو دیکھ نہ سکیں، اسی لیے ورع اور تحری کا راستہ اختیار کر کے ان سے روایت میں «حدثنا» اور «أخبرنا» کے صیغے استعمال نہ کیے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حارث بن مسکین بعض سرکاری ذمہ داریوں میں مشغول تھے کہ نسائی ان کے پاس ایک نامانوس لباس میں آئے، لوگ کہتے ہیں کہ آپ لمبا جبہ اور لمبی ٹوپی پہنے ہوئے تھے، جس کو حارث نے ناپسند کیا، ان کو شبہ ہوا کہ شاید یہ آدمی بادشاہ کا جاسوس ہے، کیونکہ ان کے سر پر بڑی ٹوپی اور بدن پر لمبا جبہ تھا، جس کی وجہ سے انہوں نے آپ کو اپنی مجلس میں نہ حاضر ہونے دیا، اس لیے نسائی دروازے پر آ کر بیٹھتے اور حارث پر جو لوگ پڑھا کرتے اسے باہر ہی سے سنتے اسی لیے ان سے روایت کے وقت «حدثنا» اور «أخبرنا» کا صیغہ استعمال نہیں کیا۔ (جامع الاصول ۱/۱۲۸) واضح رہے کہ امام ابوداؤد نے بھی «قرئ على الحارث بن مسكين» کے صیغے کا استعمال کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: کتاب الطب کے آخری ابواب اور کتاب السنہ: «باب ذراري المشركين» ۔ اہل علم کی طرف سے اعتراف عظمت اہل علم نے امام نسائی کی ممتاز دینی خدمات، علمی تبحر، تصنیف و تالیف میں شہرت اور مہارت کا اعتراف اس طور پر کیا کہ آپ کو مسلمانوں کے امام اور فن حدیث کے امام کے لقب سے ملقب کیا، اور آ پ کو مسلمانوں کا مقتدیٰ و امام تسلیم کیا، گویا آپ دینی قیادت اور علمی سیادت دونوں وصف کے جامع تھے۔ محمد بن سعد الباوردی کہتے ہیں: میں نے قاسم مطرز سے ابوعبدالرحمن النسائی کا ذکر کیا، تو انہوں نے کہا: نسائی امام ہیں، یا امامت کے درجے کے مستحق ہیں، یااس طرح کا کوئی جملہ کہا۔ (تہذیب الکمال ۱/۳۳۳) امام حاکم کہتے ہیں کہ میں نے حافظ دارقطنی کو کئی مرتبہ یہ کہتے سنا: «أبو عبدالرحمن مقدم على كل من يذكر بهذا العلم من أهل عصره» اپنے قابل شمار معاصر علمائے حدیث میں آپ سب پر مقدم ہیں۔ (معرفۃ علوم الحدیث ۸۳، التقیید ۱۴۰، تہذیب الکمال ۱/۳۳۴، التذکرہ، البدایہ والنہایۃ ۱۴/۷۹۳، والسیر ۱۴/۱۳۱،طبقات الشافعیہ) * امام حاکم کہتے ہیں: میں نے ابوعلی حسین بن علی کو کئی بار چار ائمہ اسلام کا نام لیتے سنا، جن میں سب سے پہلے ابوعبدالرحمن نسائی کا نام لیتے۔ (معرفۃ علوم الحدیث۸۲، تہذیب الکمال ۱/۳۳۳) امام حاکم کی روایت ہے کہ حافظ ابوعلی حسین بن علی فرماتے ہیں: میں نے ابوعبدالرحمن نسائی سے سوال کیا، آپ ائمہ اسلام میں سے ایک امام تھے۔ نیز کہتے ہیں: «هو الإمام في الحديث بلا مدافعة.» یعنی ابوعبدالرحمن نسائی بلا نزاع متفقہ طور پر امام حدیث ہیں۔ (تہذیب الکمال ۱/۳۳۳،سیر أعلام النبلاء ۱۴/۱۳۱، تاریخ الاسلام، تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۹۹) امام حاکم ایک دوسری جگہ کہتے ہیں: میں نے ابوعلی حسین بن علی حافظ کو یہ کہتے سنا: میں نے اپنے وطن اور اپنے سفر میں چار ائمہ حدیث کو دیکھا، دو نیساپور کے، یعنی محمد بن اسحاق ابن خزیمہ، اور ابراہیم بن ابی طالب، تیسرے ابوعبدالرحمن نسائی مصر میں اور چوتھے عبدان اہواز میں۔ (تہذیب الکمال ۱/۳۳۳) حاکم مزید کہتے ہیں: میں نے جعفر بن محمد بن الحارث کو کہتے سنا کہ میں نے حافظ مامون ابوالقاسم (حسین بن محمد بن داود مصری) کو یہ کہتے سنا: ہم فداء ( جنگ ) والے سال ابوعبدالرحمن نسائی کے ساتھ طرطوس گئے تو وہاں مشائخ اسلام کی ایک جماعت کا اجتماع ہوا، حفاظ حدیث میں سے عبداللہ بن احمد بن حنبل، محمد بن ابراہیم مربی، ابوالاذان ( عمر بن ابراہیم ) اور ( محمد بن صالح بن عبدالرحمن کیلجہ ) وغیرہ حاضر ہوئے، سبھوں نے مشورہ کیا کہ شیوخ حدیث کی روایات کا انتخاب ان کے لیے کون کرے تو سب کا ابوعبدالرحمن نسائی پر اتفاق ہوا اور سبھوں نے آپ کی منتخب کردہ احادیث لکھیں۔ (معرفۃ علوم الحدیث ۸۲،تہذیب الکمال ۱/۳۳۳، السیر ۱۴/۱۳۰، الحطۃ ۴۵۸) آگے امام حاکم کہتے ہیں: میں نے حافظ ابوالحسین محمد بن المظفر کو کہتے سنا: میں نے مصر میں اپنے شیوخ کو ابوعبدالرحمن نسائی کی امامت اور پیشوائی کا اعتراف کرتے سنا اور یہ کہ رات دن آپ عبادت میں مشغول رہتے تھے، اور برابر حج کرتے تھے، آپ والی مصر کے ساتھ فداء ( جنگ ) کے لیے گئے، تو مسلمانوں میں احیاء سنت اور تیز فہمی کی صفت سے متصف ہوئے گرچہ بادشاہ کے ساتھ نکلے تھے لیکن ان کی مجالس سے دور رہتے تھے، اپنے سفر میں فراوانی کے ساتھ کھاتے پیتے تھے، آپ اسی حال پر تھے کہ دمشق میں خوارج ( نواصب ) کے ہاتھوں جام شہادت نوش کیا۔ (تہذیب الکمال ۱/۳۳۴، تذکرۃ الحفاظ ۲/۷۰۰) حاکم کہتے ہیں: میں نے حافظ علی بن عمر دارقطنی کو ایک سے زیادہ بار یہ کہتے سنا: سارے معاصر علمائے حدیث میں ابوعبدالرحمن نسائی سب پر مقدم ہیں۔ (تہذیب الکمال ۱/۳۳۳) ابوعبدالرحمن محمد بن حسین سلمی: ابوعبدالرحمن محمد بن حسین سلمی صوفی کہتے ہیں: میں نے حافظ دارقطنی سے پوچھا کہ ابن خزیمہ اور نسائی جب کوئی حدیث روایت کریں تو آپ کس کو مقدم رکھیں گے؟ کہا: نسائی کو اس لیے کہ وہ بڑے مسند ہیں، لیکن یہ بات بھی ہے کہ میں نسائی پر کسی کو بھی فوقیت نہیں دیتا گرچہ ابن خزیمہ بے مثال امام اور پختہ عالم ہیں۔ (تہذیب الکمال ۱/۳۳۳، ۳۳۴) حمزہ بن یوسف سہمی: حمزہ بن یوسف سہمی کہتے ہیں: دارقطنی سے سوال ہوا کہ جب نسائی اور ابن خزیمہ روایت کریں تو کس کی حدیث کو مقدم رکھیں گے؟ جواب دیا کہ نسائی کی احادیث کو اس لیے کہ ان کی کوئی مثال موجود نہیں ہے، میں ان پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا، آپ ورع و تقویٰ میں بے مثال تھے چنانچہ آپ نے ابن لہیعہ سے احادیث روایت نہیں کی جب کہ سند عالی سے قتیبہ کے واسطے سے یہ احادیث ان کے پاس تھیں۔ (تہذیب الکمال ۱/۳۳۵) ابوطالب احمد بن نصر کہتے ہیں: ابوعبدالرحمن نسائی سے زیادہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کون کر سکتا ہے، آپ کے پاس ابن لہیعہ سے مروی ہر باب میں احادیث تھیں یعنی «عن قتیبہ عن ابن لہیعہ») لیکن آپ نے ان احادیث کی روایت نہیں کی، کیوں کہ آپ ابن لہیعہ کی احادیث کی روایت کو جائز نہیں سمجھتے تھے۔ (تہذیب الکمال ۱/۳۳۵، تذکرۃ الحفاظ ۲/۶۹۹) ابوبکر بن الحداد صاحب علم و فضل و اجتہاد تھے، دارقطنی کہتے ہیں کہ ابن الحداد کثیر الحدیث تھے، لیکن نسائی کے علاوہ کسی اور سے روایت نہیں کی،اور کہا کہ میں نسائی کی روایت پر راضی ہوں، یہ میرے اور اللہ کے درمیان حجت ہے۔ ابن عدی کہتے ہیں: میں نے منصور الفقیہ اور احمد بن محمد بن سلامہ طحاوی سے سنا: ابوعبدالرحمن نسائی ائمہ اسلام میں سے ایک امام ہیں۔ (تہذیب الکمال ۱/۳۳۳) الغرض امام موصوف کے فضل و کمال اور دینی قیادت اور علمی سیادت کا اعتراف سارے محدثین اور اصحاب طبقات و تراجم کے یہاں مسلم ہے۔ حافظ ابن کثیر: حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں: «وكذلك أثنى عليه غير واحد من الأئمة وشهدوا له بالفضل والتقدم في هذا الشأن.» بہت سارے ائمہ نے نسائی کی تعریف کی ہے، اور علم حدیث میں آپ کی فضلیت وپیشوائی کی شہادت دی ہے۔
Flag Counter