Maktaba Wahhabi

1116 - 2029
کمیشن عرف عام پر السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک صاحب اناج  کی منڈی  رکھتے ہیں ان کی تجارت کا طریقہ یہ ہے کی جو لوگ اناج لاتے ہیں اس کو نیلام کرکے اپنی کمیشن کاٹ کر اناج کا روپیہ اپنے پاس سے ادا کر دیتے ہیں اور اناج کے خریداروں سے اپنی کمیشن بڑھا کر روپیہ روپیہ وصول کر لیتے ہیں کیا اس طرح دونو ں طرف سے کمیشن لینی جائز ہے ،  (عبد الحکیم )  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بعض مسا ئل عرف عام پر مبنی ہوتے ہیں اگر اس منڈی میں دونوں طرف سے کمیشن لینے کا رواج ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اگر نہیں ہے ، تو دوطرف سے نہ لے ، بہر حال منڈی کے حالات پر موقوف ہے ،  (اہلحدیث جلد ۳۴نمبر ۴۴) شرفیہ :۔  صورت مرقو مہ میں حکم جو از ثابت نہیں رہا آڑھت کا معاملہ تو اس کے جواز کی یہ صورت ہے کہ آڑھتی صاحب سے اپنے مکان و دکان پر مالیا خود صاحب مال کے ٹھہرانے کا کر ایہ لے سکتا ہے کہ معاوضہ مکان کا ہے ایسے ہی تلوائی مال کا معاوضہ یا کسی چیز کا ٹھیکہ وغیرہ ہے نکلوا کر بوریوں وغیرہ میں بھروانے لدوانے کا انتظام کرنا وغیرہ کی اجرت لے سکتا ہے جو شرعاًجا ئز ہے مگر یہ سب مال والے سے ہے کہ تول جوکھ مالک مکان کے ذمہ ہے بحکم حدیث:  (اذا بتعت فاکتل واذابعت فکل رواہ احمد قال فی مجمع الزوا ئد اسنادہ حسن کذا فی النیل ج ۵حن ۱۲۶اب )   اب اس اجرت کا نام کمیشن رکھ لو یا اجرت و کرایہ ۔ الغرض یہ جائز ہے اور مشتری سے کمیشن یا اگرت لینا جائز نہیں ہاں اگر مشتری کو بھی اپنی دوکان مکان پر ٹھہرانے یا مال لدوانے ، بوریوں یا ٹھیلوں وغیرہ میں رکھوانا، یا اور کسی قسم کا انتظام کر نا ہو تو اس سے اس امور کا معاوضہ یا اجرت لینی جائز ہے ورنہ نہیں ، واللہ اعلم  (ابوسعیدشرف الدین دھلوی)   فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 ص 393
Flag Counter