پیشہ وکالت جائز ہے یا نہیں؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ زید ہمیشہ وکالت کو انجام دیتا ہے بکر اس پر یہ الزام دیتا ہے کہ پیشہ دکالت کی مذہباً سخت ممانعت ہے بلکہ حرمت کی حد تک پہنچ جاتی ہے لہذا ترک کر دیا جائے ۔ پس ایسی صورت میں بروئے قرآن و حدیث شریف آیا فی الواقع پیشہ وکالت بموجب قول بکر مذہباً ناجائز و قابل ترک ہے ؟ اگر ہے تو کس شرط کے ساتھ اگرنہیں ہے تو کس طرح ؟ بصرات و تفصیل اس فتوے کو اخبار اہلحدیث میں شائع فرماکر آپ عنداللہ ماجور و عندالناس مشکور ہوں ، (خریدار نمبر ۲۹۶۶) الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! پیشہ وکالت کی دوحثیتیں ہیں اصل منصب کے لحاظ سے تو جائز کاموں میں وکالت جائز ہے الاان مقدمات میں جن میں قانون کی خلاف شریعت ہے مثلا دیوانی میں میعاو قرضہ یا فوجداری میں شراب ، خمر اور زناکا جواز ایسے مقدمات میں بپابندی قانون پیروی کرنا بھی خلاف شریعت ہے حق یہ ہے کہ طریق عمل نے اس پیشہ کو بہت کچھ موردالزام بنایا ہے جس کی تفصیل کی ضرورت نہیں نہ مناسب ہے اگر درخانہ کس است یک حرف بس است، (۲۴مئی ۱۹۲۹ء) فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 ص 469 |
Book Name | اجتماعی نظام |
Writer | متفرق |
Publisher | متفرق |
Publish Year | متفرق |
Translator | متفرق |
Volume | متفرق |
Introduction | فتاوے متففرق جگہوں سے ، مختلف علما کے، مختلف کتابوں سے نقل کئے گئیے ہیں۔ البتہ جمع و ترتیب محدث ٹیم نے ، تصحیح و تنقیح المدینہ اسلامک ریسرچ سینٹر نے کی ہے |