Maktaba Wahhabi

1211 - 2029
سوسائٹی میں رشوت کا اثر السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ اس سوسائٹی کا حال کیسا ہے جس میں رشوت عام ہو؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اس میں کوئی شک نہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں ظہور پذیر ہوں تو سوسائٹی میں افتراق کا سبب بن جاتی ہیں ۔ اس سوسائٹی کے افراد کے درمیان محبت کے رشتے منقطع ہو جاتے ہیں جو بغض وعداوت اور بھلائی کے کاموں پر عدم تعاون کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ جب کسی معاشرہ میں رشوت اور دوسرے گناہ پیدا ہوجائیں تو ان کے برے اثرات یہ ہوتے ہیں کہ اخلاق رذیلہ پیدا ہوتے اور فروغ پاتے ہیں ۔ اچھے اخلاق ختم ہو جاتے ہیں ۔ سوسائٹی کے کچھ لوگ دوسروں سے باہمی دشمنی کی بنا پر ظلم کرتے ہیں ۔ وہ رشوت، چوری، خیانت، معاملات میں دھوکہ دہی، جھوٹی شہادت اور اسی طرح کے دوسرے ظلم کے کاموں اور سرکشی سے دوسروں کے حقوق دبانے لگتے ہیں ۔ حالانکہ ان کاموں میں سے ہر نوع بدترین جرم ہے۔ اور یہی باتیں پروردگار کے غضب اور مسلمانوں میں بغض وعداوت کے اسباب ہیں اور انہی باتوں سے اللہ کا عذاب عام ہوتا ہے۔ جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ((مَا مِنْ ذَنْبٍ اجْدَرُ عندَ اللّٰہِ مِنْ انْ یُعَجِّلَ لصَاحِبہ العقوبۃ فی الدنیا مع ما یدخرہ لہ فی الاخرۃ من البغی، وقطیعۃ الرحم)) ’’اللہ تعالیٰ کے ہاں تمام گناہوں میں سے دو گناہ ایسے ہیں جو اس لائق ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کا ارتکاب کرنے والوں کو دنیا میں سزا دیتا ہے۔ پھر آخرت میں بھی اسے ان کی سزا دے گا اور وہ ہیں ، زیادتی کرنا اور قطع رحمی کرنا۔‘‘ اور بلا شبہ رشوت اور ظلم کی تمام قسمیں زیادتی میں شامل ہیں ، جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے اور صحیحین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا رہتا ہے پھر جب اسے پکڑتا ہے تو پھر چھوڑتا نہیں ۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: [وَ کَذٰلِکَ اَخْذُ رَبِّکَ اِذَآ اَخَذَ الْقُرٰی وَ ہِیَ ظَالِمَۃٌ اِنَّ اَخْذَہٗٓ اَلِیْمٌ شَدِیْدٌo} (ہود: ۱۰۲) ’’اور تمہارا پروردگار جب نافرمان بستیوں کو پکڑا کرتا ہے تو اس کی پکڑ اسی طرح کی ہوتی ہے۔ بے شک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور سخت ہے۔‘‘     فتاوی بن باز رحمہ اللہ جلداول -صفحہ 156
Flag Counter