Maktaba Wahhabi

1259 - 2029
غیر مسلموں سے معاشی تعلق رکھنا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ہمارے ہاں مواصلات کی ایک کمپنی ٹیلی نار کے لئے ٹاور کی جگہ مخصوص کی گئی جبکہ بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے اعتراض اٹھایا گیا ہے کہ رسول اللہْ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گستاخانہ خاکے شائع کرنے میں ڈنمارک کا ملک پیش پیش تھا۔ جن سے بائیکاٹ کا فیصلہ ہوا تھا، لہٰذا اس ملک کی کمپنی کو ٹاور لگانے کی اجازت دینا اس کے معاشی بائیکاٹ کے خلاف ہے ، جس کا فیصلہ کیا گیا شرعی اعتبار سے اس مسئلہ کی وضاحت کریں تاکہ ہم اس کمپنی سے تعاون کرنے یا نہ کرنے کے متعلق کوئی فیصلہ کرسکیں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! سورہ ممتحنہ میں اللہ تعالیٰ نے کفار کی متعلق دو اقسام کی نشاندہی کی ہے۔ وہ کافر جو اسلام اور اہل اسلام کو نیچا دکھانے  میں کوشاں ہیں اور ان سے برسر پیکار ہیں ، وہ کافر جو اپنے کفر پر تو ہیں لیکن اسلام اور اہل اسلام کے خلاف سازشوں میں شریک نہیں ہیں۔کفار سے تعلقات کی بھی حسب ذیل تین اقسام ہیں: (۱)موالات:دوستی اور قلبی تعلقات رکھنا ، یہ تو کسی کافر کے ساتھ کسی حال میں درست نہیں ہے۔ قرآن کریم نے اس سے سختی سے روکا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:‘‘تم اہل ایمان کو چھوڑ کر کافروں کو دوست نہ بناؤ۔’’(۳/آل عمران:۲۸) (۲)مدارات:ظاہری طور پر خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی سے پیش آنا ،رفع ضرر اور مصلحت دین کے پیش نظر کفار کے ساتھ اس قسم کا تعلق رکھا جاسکتا ہے۔ ذاتی مفاد یا دنیوی مصلحت کے لئے ایسا کرنا درست نہیں ہے۔ (۳)مواسات:ضرورت مند پر احسان اور اس کی نفع رسائی کا اقدام یہ صرف ایسے کفار کے ساتھ کیا جاسکتا ہے جو اہل حرب نہ ہوں،یعنی اہل اسلام سے برسر پیکار نہ ہوں۔اگر کفار اہل اسلام کی مخالفت کرتے ہوئے میدان میں اتر آئیں اور اہل اسلام کو تکلیف دینے کے لئے منصوبہ سازی میں سرگرم عمل ہوں تو ایسے کفار کے ساتھ مواسات درست نہیں۔ سورہ ممتحنہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ کافر دشمن اور کافر غیر دشمن ہوایک ہی درجہ میں رکھنا درست نہیں ہے بلکہ ان میں فرق کرنا چاہیے۔ خیر پسند لوگوں کے ساتھ خیر خواہانہ تعلقات کو جائز قرار دیا گیا ہے ، خواہ وہ کسی مذہب یا دین سے تعلق رکھتےہوں۔ اس تمہیدی گزارش کے بعد ہم پیش کردہ سوال کا جواب دیتے ہیں جن  لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے شائع کئے ہیں ان سے بائیکاٹ کرنا ہمارا ایمانی تقاضا ہے۔اسلامی حکومتوں کا فرض ہے کہ وہ اس سلسلہ میں اپنا کردار کریں،اس سلسلہ میں سعودی عرب کی مثال پیش کی جاسکتی ہے،واقعی اس نے مصنوعات کا بائیکاٹ کرکے ایمانی غیر ت  کا مظاہرہ کیا ہے۔ ہماری معلومات کےمطابق ٹیلی نار جو ڈنمار ک کی ایک مواصلاتی کمپنی ہے اس نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا معائدہ کیا ہے اور اس سلسلہ میں اس نے پاکستان سے اجازت حاصل کرنے کے لئے  تقریباً بیس بائیس ارب روپیہ حکومت  پاکستان کو ادا کیا ہے اور پاکستان نے باضابطہ طور پر اسے کام کرنے کی اجازت دی ہے، جن لوگوں نے خاکے شائع کرنے کی مجرمانہ حرکت کی ہے ان کا اس کمپنی سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کمپنی نے اخبارات میں ان لوگوں سے اظہار بیزاری کا اعلان کیا ہے اور پاکستا ن میں کئی ایک اہل پاکستان کا اس سے روزگار وابستہ ہے، ایسے حالات میں اس کمپنی سے معاشی بائیکاٹ صحیح نہیں ہے اور ٹاور لگانے میں معاہدہ ہوا ہے۔ اس میں رکاوٹیں کھڑی کرنا بھی درست نہیں ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص463
Flag Counter