Maktaba Wahhabi

1381 - 2029
(487) تارک نماز کے ذبیحہ کے بارے میں حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ اگر کوئی شخص ذبح کرے جو تارک نماز ہو تو کیا نمازی کیلئے اس ذبیحہ کو کھانا جائز ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! نماز ارکان خمسہ میں سے شہادتین کے بعد سب سے بڑا رکن ہے‘ جو اس کے وجوب کا انکار کرتے ہوئے ترک کرے تو اس پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ وہ کافر ہے اور جو شخص محض سستی و کوتاہی کی وجہ سے اسے ترک کرے تو وہ بھی علماء کے صحیح قول کی روشنی میں کافر ہے اور اس سلسلہ میں دلیل وہ حدیث ہے جو صحیح مسلم میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «بَیْنَ الرَّجُلِ وَبَیْنَ الشِّرْکِ وَالْکُفْرِ تَرْکُ الصَّلَاةِ » ( صحیح مسلم) ’’بندے اور شرک و کفر کے درمیان فرق ترک نماز سے ہے‘‘۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ’’مسند‘‘ میں اور اہل سنن نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «العَہْدُ الَّذِی بَیْنَنَا وَبَیْنَہُمُ الصَّلاَةُ، فَمَنْ تَرَکَہَا فَقَدْ کَفَرَ » ( سنن الترمذی) ’’ہمارے اور ان کے درمیان جو عہد ہے وہ نماز ہے‘ جو اسے ترک کر دے تو اس نے کفر کیا‘‘۔ لہٰذا جس شخص کے بارے میں آپ نے سوال کیا ہے کہ اگر وہ جوب نماز کے انکار کی وجہ سے تارک ہے تو اس کا ذبیحہ بالاجماع نہیں کھایا جا سکتا اور اگر وہ محض سستی اور کوتاہی کی وجہ سے تارک نماز ہے تو ظاہر قول کے مطابق وہ کافر ہی ہے‘ لہٰذا سے کھانا جائز نہیں جسے اس نے خود اپنے ہاتھ سے ذبح کیا ہو کیونکہ و ہ مرتد ہے اور مرتد کا ذبیحہ نہیں کھایا جا سکتا جیسا کہ علماء کرام نے صراحت فرمائی ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج3ص450
Flag Counter