Maktaba Wahhabi

1397 - 2029
(504) کسی شخص کے اکرام اور تعظیم کیلئے جانور ذبح کرنا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بعض عربوں میں یہ عادت ہے کہ وہ بوقت حاجت ایک دوسرے کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں‘ کبھی کبھی طالب رضا بکری لے کر آتا ہے اور اللہ کے نام پر ذبح کرنے کے بعد ہی دروازہ سے داخل ہوتا ہے اور کبھی وہ بکری لے کر آتا ہے تو وہ جس شخص کیلئے بکری لایا ہوتا ہے تو وہ یہ کہتا ہے کہ: ’’عقیرہ‘‘ حرام ہے اور وہ اسے اپنے لیے مخصوص کر لیتا ہے لیکن اس کی رضا کا طالب اس کے اکرام میں ایک دوسری بکری ذبح کر دیتا ہے تو کیا ان دونوں یا ان میں سے کسی ایک کا گوشت کھانا جائز ہے یا نہیں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! انسان کے کسی دوسرے کیلئے بکری وغیرہ زبح کرنے سے اگر مقصود اس کی عزت افزائی ہے کہ وہ خود بھی اور اس کے رفقاء بھی اسے کھائیں‘ نیز جسے بھی ان کے ساتھ کھانے کی دعوت دی جائے‘ وہ بھی شریک ہو جائے تو یہ جائز ہے بلکہ صحیح احادیث نے اس کی ترغیب بھی دی ہے‘ چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ » ( صحیح بخاری) ’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘‘۔ اسی طرح ابو شریح کعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ وَالیَوْمِ الآخِرِ فَلْیُکْرِمْ ضَیْفَہُ، جَائِزَتُہُ یَوْمٌ وَلَیْلَةٌ، وَالضِّیَافَةُ ثَلاَثَةُ أَیَّامٍ، فَمَا بَعْدَ ذَلِکَ فَہُوَ صَدَقَةٌ، وَلاَ یَحِلُّ لَہُ أَنْ یَثْوِیَ عِنْدَہُ حَتَّی یُحْرِجَہُ » ( صحیح بخاری) ’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہو‘ اسے چاہئے کہ اپنے مہمان کی عزت کرے‘ اس کا انعام ایک دن رات ہے اور مہمان نوازی تین دن اور پھر اس کے بعد صدقہ ہے‘ کسی کیلئے یہ حلال نہیں کہ وہ کسی کے پاس اس قدر قیام کرے کہ اسے مشقت میں ڈال دے‘‘۔ کبھی ذبح کرنے سے مقصود محض تعظیم و تکریم ہوتی ہے خواہ بعد میں ذبیحہ کھانے کے لئے پیش کیا جائے یا نہیں‘ تو یہ جائز نہیں بلکہ یہ شرک اور موجب لعنت ہے کیونکہ یہ بھی لغیراللہ کے عموم میں داخل ہے۔ علیؓ سے روایت ہے: «حَدَّثَنِی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم)  بِکَلِمَاتٍ أَرْبَعٍ، قَالَ: فَقَالَ: مَا ہُنَّ یَا أَمِیرَ الْمُؤْمِنِینَ؟ قَالَ: قَالَ: «لَعَنَ اللہُ مَنْ لَعَنَ وَالِدَہُ، وَلَعَنَ اللہُ مَنْ ذَبَحَ لِغَیْرِ اللہِ، وَلَعَنَ اللہُ مَنْ آوَی مُحْدِثًا، وَلَعَنَ اللہُ مَنْ غَیَّرَ مَنَارَ الْأَرْضِ » ( صحیح مسلم) ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے چار باتیں ارشاد فرمائیں (۱) جو اپنے والدین پر لعنت کرے‘ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے اور (۲) جو غیر اللہ کے لئے ذبح کرے‘ اللہ تعالیٰ اس پر لعنت فرمائے (۳) جو کسی بدعتی کو ٹھکانا دے‘ اللہ تعالیٰ اس پر بھی لعنت فرمائے (۴) اور جو زمین کی حدود کو مٹائے‘ اللہ اس پر بھی لعنت فرمائے‘‘۔ لہٰذا اس طرح کے ذبیحہ کو کھانا جائز نہیں ہوگا خواہ ذبح کرنے والا اس پر اللہ تعالیٰ ہی کا نام کیوں نہ لے کیونکہ اعمال کا انحصار نیتوں پر ہے اور ’’عقیرہ‘‘ کی تقدیم سے اس کا مقصود‘ غیر اللہ کی تعظیم اور خالصتاً اس کی تکریم ہے‘ نہ کہ اس کے گوشت سے کھانا مقصود ہے اگر وہ زندہ جانور پیش کرے اور مسترضی اسے لے لے اور مہمانوں کیلئے ذبح کر دے یا مہمانوں کیلئے کسی اور جانور کو ذبح کر دے تو اس طرح کے جانور کو کھانا جائز ہے کیونکہ اسے اس کی تعظیم کیلئے ذبح نہیں کیا گیا۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج3ص461
Flag Counter