Maktaba Wahhabi

1411 - 2029
(524) پان حرام ہے ناپاک (پلید) نہیں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بہت سے پان استعمال کرنے والے لوگ نماز کے وقت پان کو منہ سے نکال کر پلاسٹک کی ڈبیہ میں رکھ لیتے ہیں اور پھر نماز سے فراغت کے بعد اسے دوبارہ منہ میں ڈال لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ پان نجس نہیں ہے؟ جو منہ میں پان رکھ کر نماز پڑھے اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جس کے منہ میں پان ہو‘ کیا اس کیلئے یہ جائز ہے کہ پان سے فارغ ہونے تک نماز کو مؤخر کر دے اور پھر فوت شدہ نمازوں کو جمع کر کے پڑھ لے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! مجھے کوئی ایسی دلیل معلوم نہیں جس سے پان نجس قرار پاتا ہو کیونکہ یہ ایک معروف درخت ہے اور درختوں اور تمام نباتات کے بارے میں اصل یہ ہے کہ یہ پاک ہیں لیکن علماء کے صحیح ترین قول کی روشنی میں اس کا استعمال جرم ہے کیونکہ یہ بہت سے نقصانات پر مشتمل ہے۔ پان استعمال کرنے والے کو چاہئے کہ وہ نماز کے وقت اسے استعمال نہ کرے۔ پان کی وجہ سے نماز کو مؤخر کرنا بھی جائز نہیں بلکہ ہر مسلمان کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ ہر نماز کو بروقت اور باجماعت اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ مل کر مسجد میں ادا کرے کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «من سمع النداء فلم یأتہ فلا صلاة لہ الا عذر- ( سنن ابن ماجہ) ’’جو شخص اذان سنے اور پھر مسجد میں نہ آئے تو اس کی نماز ہی نہیں ہوتی سوائے اس کے جسے کوئی عذر ہو‘‘۔ اس حدیث کو امام ابن ماجہ‘ دارقطنی اور حاکمؒ نے صحیح سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے پوچھا گیا کہ عذر سے کیا مراد ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ خوف یا بیماری۔ پان کا استعمال کوئی شرعی عذر نہیں ہے بلکہ اس کا استعمال تو ایک بہت بری بات ہے اور اگر اس کے استعمال سے نماز میں تاخیر ہوتی ہو یا مسجد میں نماز باجماعت ادا کرنے میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہو تو پھر اس کے استعمال کرنے کا گناہ اور بھی زیادہ شدید ہوگا۔ پان استعمال کرنے والے کیلئے دو نمازوں کو جمع کر کے ادا کرنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ اس کا استعمال ان شرعی عذروں میں سے نہیں ہے جن کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت ہے کیونکہ حدیث سے یہ ثابت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے جب حضرات صحابہ کرامؓ کو نماز کے اوقات سکھائے اور پہلے اور آخری اوقات کی وضاحت فرما دی تو فرمایا کہ ’’نماز ان دو وقتوں کے درمیان ہے‘‘۔ اور ’’صحیح مسلم‘‘ میں حدیث ہے کہ ایک نابینا شخص نے عرض کیا یارسول اللہ! میرے پاس کوئی معاون نہیں جو مجھے مسجد میں لے جائے تو کیا میرے لیے گھر میں نماز ادا کرنے کی رخصت ہے؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «ہل تسمع النداء بالصلاة؟ قال : نعم قال:فأجب - ( صحیح مسلم) ’’کیا آپ نماز کیلئے اذان کی آواز سنتے ہیں؟ اس نے عرض کیا جی ہاں! تو آپ نے فرمایا کہ ’’پھر اس آواز پر لبیک کہو‘‘۔ صحیح مسلم کے علاوہ ایک دوسری روایت میں جس کی سند صحیح ہے‘ یہ الفاظ ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: «لا اجدلک رخصة۔ ( سنن ابی داؤد) ’’میں تمہارے لیے کوئی رخصت نہیں پاتا‘‘۔ یہ صحیح احادیث اور اس کے ہم معنی دیگر تمام احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ نماز باجماعت‘ اپنے وقت پر اللہ تعالیٰ کے گھروں میں ادا کرنا ضروری ہے۔ نماز کو مؤخر کر کے پڑھنا یا بغیر شرعی عذر کے دو نمازوں کو جمع کر کے ادا کرنا حرام ہے۔ میں پان‘ سگریٹ‘ نشہ آور اور مستی پیدا کرنے والی اشیاء استعمال کرنے والے تمام لوگوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ ان چیزوں سے مکمل طور پر اجتناب کریں اور اللہ تعالیٰ سے ڈریں کیونکہ ان کے استعمال میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے اس کام میں شرکت یا کم از کم اسے پسند کرنے کا وسیلہ ہے اور سورۃ الانعام میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَإِذا رَ‌أَیتَ الَّذینَ یَخوضونَ فی ءایـٰتِنا فَأَعرِ‌ض عَنہُم حَتّیٰ یَخوضوا فی حَدیثٍ غَیرِ‌ہِ ۚ وَإِمّا یُنسِیَنَّکَ الشَّیطـٰنُ فَلا تَقعُد بَعدَ الذِّکر‌یٰ مَعَ القَومِ الظّـٰلِمینَ ﴿٦٨﴾...سورة الانعام ’’اورجب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بے ہودہ بکواس کر رہے ہیں تو ان سے الگ ہو جاؤیہاں تک کہ وہ اور باتوں میں مصروف ہو جائیں اور اگر (یہ بات) شیطان تمہیں بھلا دے تو یاد آنے پر ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو‘‘۔ اور فرمایا: ﴿وَقَد نَزَّلَ عَلَیکُم فِی الکِتـٰبِ أَن إِذا سَمِعتُم ءایـٰتِ اللَّہِ یُکفَرُ‌ بِہا وَیُستَہزَأُ بِہا فَلا تَقعُدوا مَعَہُم حَتّیٰ یَخوضوا فی حَدیثٍ غَیرِ‌ہِ ۚ إِنَّکُم إِذًا مِثلُہُم... ﴿١٤٠﴾... سورة النساء ’’اور اللہ نے تم (مومنوں) پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں) سنو کہ اللہ کی آیتوں سے انکار کیا جا رہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ (ان باتوں کو چھوڑ کر ) دوسری باتوں میں مشغول نہ ہو جائیں ان کے پاس مت بیٹھو ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاؤگے‘‘۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج3ص490
Flag Counter