Maktaba Wahhabi

1530 - 2029
(344) داڑھی کی مقدار طول کیا ہے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ داڑھی کی مقدار طول کیا ہے ؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! واضح ہو کہ داڑھی انبیاء ﷤ کی سنت متوارثہ ہے ، جیسا کہ قرآن وحدیث میں اس کی تصریح موجود ہے ۔ چنانچہ قرآن مجید میں ہے حضرت ہارون علیہ وعلی نبینا  السلام نے داڑھی بارے میں حضرت موسیٰ کو کہا تھا : ﴿ قَالَ یَا ابْنَ أُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْیَتِی وَلَا بِرَأْسِی... ﴿٩٤﴾...طہ   ’’ ہارون (علیہ السلام) نے کہا اے میرے ماں جائے بھائی! میری داڑھی نہ پکڑ اور سر کے بال نہ کھینچ۔‘‘ عَنْ عَائِشَةَ، عَنْ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ:  عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْیَةِ، وَالسِّوَاکُ، وَالِاسْتِنْشَاقُ، وَنَتْفُ الْإِبْطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ  قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِیتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَکُونَ الْمَضْمَضَةُ. (نسائی مع تعلیقات السلفیة : ج2 ص 269) یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دس چیزیں سنن انبیاء علیہ السلام سے ہیں ۔ 1۔ مونچھیں کاٹنا ، 2۔ناخن اتارنا ۔ 3۔انگلیوں کو گرہوں کو دھونا ۔ 4۔داڑھی کو بڑھانا ۔ 5۔مسواک کرنا ۔ 6۔بغلوں کے بال اکھاڑنا ۔ 7۔موئے زہار کا مونڈنا ۔ 8۔ناک میں پانی چڑھانا ۔ 9۔استنجاء کرنا ۔ 10۔منہ کی کلی کرنا ۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ داڑھی فطرت ، یعنی سنت قدیمہ میں شامل ہے ۔ بلکہ داڑھی بڑھانے کاحکم ہے ، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے :  عَنِ ابْنِ عُمَرَ  رضی اللہ عنہما  قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم ‏  انْہَکُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَی ‏.‏ (2) ( ص875ج2 صحیح مسلم ص 129ج1) کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ، مونچھیں خوب کتروایا لیا کرو اورداڑھی کو بڑھاؤ ۔یعنی پوری طرح بڑھنے دو صحیح مسلم کی ایک روایت اوفوا اللحی . اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ لکھتے ہیں : وأنہ وقع عند ابن ماہان  ارجوا وجاء فی روایة البخاری وفروا اللحی فحصل خمس روایات :  اعفوا وأوفوا   و ارخوا  و ارجوا  و وفروا  ومعناہا کلہا ترکہا علی حالہا ہذا ہو الظاہر من الحدیث الذی تقتضیہ ألفاظہ . (3) ( نووی ص 129ج1) کہ داڑھی بڑھانے کے متعلق احادیث صحیحہ میں اعفوا ، اوفوا، ارخوا، ارجوا، اور وفروا، پانچ الفاظ آئے ہیں اور ان سب کا معنی ہے کہ داڑھی کو اپنے حال پر چھوڑ دو ۔ حدیث کے الفاظ کا بظاہر یہی تقاضا ہے ۔ ان صحیح احادیث سے معلوم ہوا کہ داڑھی کو مونڈانا اور کترانا جائز نہیں بلکہ داڑھی کو مونڈانا مجوسیوں کا فعل ہے ، جیسا کہ صحیح مسلم میں خالفوا المجوس کاحکم ہے اور کسی صحیح حدیث میں داڑھی کو کترانے کی اجازت نہیں آئی ۔ البتہ ترمذی میں عمرو بن شعیب بن ابیہ عن جدہ سے ایک روایت ہے : أَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَأْخُذُ مِنْ لِحْیَتِہِ مِنْ عَرْضِہَا وَطُولِہَا ‏.(1) (ترمذی مع  تحفة الاحوذی : ص 11ج 4) کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی کو طول وعرض سے کاٹ لیتے تھے مگر یہ حدیث صحیح نہیں بلکہ ضعیف ہے ۔ جیسا کہ خود امام ترمذی نے عمربن ہارون راوی پر امام بخاری کی جرح نقل کی دی ہے : ہذا حدیث غریب وسمعت محمد بن إسمعیل یقول عمر بن ہارون مقارب الحدیث لا أعرف لہ حدیثا لیس لہ أصل أو قال ینفرد بہ إلا ہذا الحدیث. (2) (ترمذی مع تحفة الأحوذی ص11 ج4) اما م عبدالرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں کہ عمر بن ہارون متروک راوی ہے ، بہر حال یہ حدیث ضعیف ہے اور قابل استدلال ہرگز نہیں ۔ ہاں صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر کے متعلق لکھا ہے کہ وہ مٹھی سے زائد بال کٹوا دیتے تھے ، اسی طرح حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ  حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مٹھی بھر سے زائد ایک آدمی کی داڑھی کاٹ دی تھی اور اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بھ مٹھی سے زائد داڑھی کاٹ دیتے تھے ، تاہم علماء نے لکھا ہے کہ کم از کم مٹھی بھر داڑھی رکھنی واجب ہے اور مٹھی سے زائد کٹوانے والے کو برا بھلا نہیں کہا جا سکتا ۔ تاہم داڑھی نہ کٹوانا افضل ہے اور یہی اسلم ہے ۔اور کم از کم ایک مٹھی داڑھی رکھنا واجب ہے ۔ اس سے کم داڑھی رکھنا مونڈوانہ کے مترادف ہے ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ محمدیہ ج1ص858
Flag Counter