Maktaba Wahhabi

1566 - 2029
(170) مرد و زن کا بغیر نکاح کے اکھٹے رہنا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ مرد وعورت بغیر شادی و نکاح کے رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے ازدواجی تعلقات بھی استوار کئے ہوئے ہیں۔ شریعت اسلامیہ کا ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟ قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ کا حل درکارہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اللہ تعالیٰ نے جرائم کے اختتام کے لئے قرآن مجید میں مختلف جرائم کے اعتبار سے مختلف سزاؤں کا تذکرہ کیا ہے۔ اسی طرح جب دو مرد و عورت آپس میں برا فعل سرانجام دیتے ہیں اور زنا جیسے فحش و قبیح فعل کا ارتکاب کر لیتے ہیں تو شریعت نے ان کے لئے جو سزا تجویز کی ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے:    شادی شدہ مرد و عورت زنا کریں تو ان کو رجم کیا جائے اور اگر غیر شادی شدہ ہوں تو ان کو سو کوڑے لگائے جائیں اور ایک سال کے لئے جلاوطن کر دیا جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿الزَّانِیَةُ وَالزَّانِی فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ ۖ وَلَا تَأْخُذْکُم بِہِمَا رَأْفَةٌ فِی دِینِ اللَّـہِ إِن کُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ ۖ وَلْیَشْہَدْ عَذَابَہُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِینَ ﴿٢﴾...النور    ''زناکار عورت و مرد میں سے ہر ایک کو سو کوڑے لگاؤ ان پر اللہ تعالیٰ کی شریعت کی حد جاری کرتے ہوئے تمہیں ہر گز ترس نہیں کھانا چاہیے اگر تمہیں اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان ہے اور ان کی سزا کے وقت مومنوں کی ایک جماعت موجود ہونی چاہیے۔''(النور : ۲)    تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت عام مخصوص منہ البعض یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ حکم عام نہیں کہ ہر قسم کے زانی کو۱۰۰ کوڑے لگائے جائیں بلکہ یہ دیگر ادلہ شرعیہ کی بنا پر خاص ان لوگوں کے متعلق ہے جو کنوارے غیر شادی شدہ ہوں۔ حدیث پاک میں اس کی مزید تفصیل جو رسول اللہ   ﷺسے منقول ہے اس میں ایک سال کے لئے جلا وطنی بھی ہے جیسا کہ عنقریب مذکور ہو گا۔ اور جو شادی شدہ ہوں ان کے لئے رحم ہے۔ اس طرح غلام یا باندی جرم کر بیٹھے تو اس کے لئے ٥٠ کوڑے ہیں یعنی ۱۰۰کوڑوں کا نصف جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَإِنْ أَتَیْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَیْہِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ... ٢٥﴾...النساء    ''اگر باندیاں بے حیائی کا ارتکاب کریں تو ان پر آزاد عورتوں کی نسبت سے نصف سزا ہے۔''(النساء: ۲۵)    لہٰذا مذکورہ بالا سورۂ نور کی آیت کا حکم عام نہیں ہے بلکہ دیگر شرعی ادلہ کی بنا پر کنوارے کے لئے خاص ہے۔ شادی شدہ کے لئے جو رجم کی سزا ہے وہ یہ ہے کہ دو آدمی رسول اللہ   ﷺ  کے پاس آئے ایک نے کہا یا رسول اللہ !میرا بیٹا اس کے ہاں ملازم تھا وہ اس کی بیوی سے زنا کر بیٹھامیں نے اس کے بدلے ایک سو بکریاں اور ایک لونڈی دی ہے پھر میں نے علماء سے دریافت کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ میرے بیٹے پر شرعی سزا سو کوڑے اور ایک سال جلاوطنی ہے اور اس کی بیوی پر رجم ہے۔ آپ   ﷺ  نے فرمایا: ((لَأَقْضِیَنَّ بَیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللَّہِ الْمِائَةُ شَاةٍ وَالْخَادِمُ رَدٌّ عَلَیْکَ وَعَلَی ابْنِکَ جَلْدُ مِائَةٍ وَتَغْرِیبُ عَامٍ. وَیَا أُنَیْسُ اغْدُ عَلَی امْرَأَةِ ہَذَا فَسَلْہَا، فَإِنِ اعْتَرَفَتْ فَارْجُمْہَا، فَاعْتَرَفَتْ، فَرَجَمَہَا.))    ''میں تمہارے درمیان کتاب اللہ سے فیصلہ کر دوں گا۔ لونڈی اور سو بکریاں تجھے واپس دلوادی جائیں گی اور تیرے لڑکے پر۱۰۰ کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور اے انیس تو اس کی بیوی کے پاس جا اگر وہ اعتراف کر لے تو اس کو سنگسار کر دینا اس نے اعتراف کر لیا اور اسے رجم کر دیا گیا۔''    (موطا مالک۲/۸۲۲، بخاری۵/۵۰۱، ۱۳۶/۱۲،۱۸۵/۱۳، مسلم (۱۶۹۷)، ابو داؤد(۴۴۴۰) نسائی۲۴۰/۸، ترمذی۱۴۳۳، ابنِ ماجہ۲۵۴۵، دارمی۹۸/۲، احمد۱۱۵/۴، عبدالرزاق۱۳۳۰۹، حمیدی۸۱۱، طیالسی۹۵۳، ابنِ حبان۴۴۲۰، بیہقی۲۱۲/۸،۲۲۲، شرح السنہ۲۷۱۰، المنتقٰی لابن جارود۸۱۱)    مذکورہ بالا حدیث صحیح سے معلوم ہوا کہ کنوارہ زنا کرے تو ١٠٠ کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی شادی شدہ پر رجم یعنی سنگساری ہے۔    اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ اپنے خطبہ میں ارشاد فرمایا لوگوں اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ  کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ   ﷺ  پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور اس مین رجم کی آیت بھی تھی جس کو ہم نے پڑھا اور یاد رکھا اور عمل کیا۔ مجھے ڈر ہے کہ کچھ زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہے کہ ہم رجم کو کتاب اللہ میں نہیں پاتے کہیں ایسا نہ کہو کہ فریضہ خداوندی کے ترک کرنے کے باعث لوگ گمراہ ہو جائیں۔ فرمایا: (( ألا وإن  الرجم  حق علی من زنا إذا أحصن  و قامت  البینة  او  کان الحمل او الإعتراف   إلا  و إن  رسول اللہ  ﷺقد  رجم  و رجمنا معہ.))    ''آگاہ ہو جاؤ بے شک رجم اس آدمی پر جو شادی شدہ ہو اور زنا کا مرتکب ہو حق ہے جب اس پر دلیل قائم ہوجائے یا حمل ٹھہر جائے یا مجرم اعتراف کر لے متنبہ رہو بے شک رسول اللہ   ﷺ  نے رجم کیا اور ہم نے بھی رجم کیا۔'' (بخاری۱۳۷/۱۲، مسلم۱۲۹۱، ابو داؤد۴۴۱۸، احمد۲۹۱،۴۰،۴۷ وغیرہ)    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رجم کی سزا شادی شدہ پر رسول اللہ   ﷺ  کے زمانے میں بھی نافذ تھی اور خلفاء کے دور میں یہی سزا نافذالعمل تھی۔    مذکورہ بالا آیت اور احادیث ِ صحیحہ مرفوعہ میں صراحتاً یہ بات موجود ہے کہ کنوارہ آدمی ١٠٠ کوڑوں اور ایک سال جلا وطنی اور شادی شدہ رجم کا مستحق ہے لہٰذا سوال میں مذکورہ دونوں افراد جو کہ کنوارے ہیں اور بغیر شادی کے میاں بیوی کے حقوق کی طرح رہ رہے ہیں اور اس پر چار گواہ بھی قائم ہیں یا وہ خود اس جرم کا اقرار کر لیتے ہیں یا عورت کو حمل ٹھہر جاتا ہے اور ہر سہ صورت میں حد قائم ہو گی اور انہیں ١٠٠کوڑے اور ایک سال کی جلاوطنی کی سزا دی جائے گی۔    اگر وہ یہ کہیں کہ ہم بہن بھائی کی طرح اکٹھے رہتے ہیں اور زنا کے مرتکب نہیں پھر بھی غلط ہے اور وہ فعل حرام کے مرتکب ہو رہے ہیں کیونکہ کوئی مرد اور عورت جو کہ غیر محرم ہیں ان کی خلوت صحیح نہیں۔ رسول ﷺ  نے فرمایا: (( لا یخلون رجل بإمراة  إلا و کان  ثالثہما الشیطان.))    ''کوئی مرد کسی عورت سے خلوت نہیں کرتا مگر تیسرا ان کے ساتھ شیطان ہوتا ہے۔''    اسی طرح ایک حدیث میں عورت کے وہ تمام مرد رشتہ دار جو اس کے خاوند کی طرف سے بنتے ہیں ان کے ساتھ خلوت کو موت کہا گیا ہے۔ آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا الحمو الموت لہٰذاان کی فی الفور جدائی کرا دی جائے اور فعل حرام کے ارتکاب کی جوہ سے ان کو تعزیراً سزا دی جائے اور فعل زنا ثابت ہو تو مذکورہ بالا سزا جار ی کی جائے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب آپ کے مسائل اور ان کا حل ج 1
Flag Counter