Maktaba Wahhabi

1612 - 2029
سود کی تعریف اور اقسام السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ (1) سود کی تعریف اور اقسام؟ (2) سو  نقد1/1/2 سو ادھار کی حیثیت کیا ہے ؟ (3) قسطوں پر لی چیز کی حیثیت کیا جائز ہے یا نہیں ؟ (4) سرکاری ملازمین کو جو تنخواہ ملتی ہے وہ بنکوں کے ذریعے ملتی ہے اور بنک میں اکائونٹ کے بغیر نہیں رقم ملتی آیا وہ جائز ہے  یا نہیں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! (1) سود وربا کی تعریف تو مجھے کتاب وسنت میں کہیں نہیں ملی البتہ اس کے ناجائز اور حرام ہونے پر دلالت کرنے والی نصوص کتاب وسنت میں بکثرت موجود ہیں ۔ ہاں اس کی اقسام کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ’’ ثَلاَ ثَہٌ وَّسَبَعُوْنَ بَابًا‘‘سنن ابن ماجہ ابواب التجارات-باب التغلیظ فی الربا ’’سود کے تہتر (۷۳) درجے ہیں ان کا معمولی یہ ہے کہ انسان اپنی ماں سے نکاح کرے اور سب سے بڑا سود مسلمان کی عزت تباہ کرنا ہے‘‘ (2) ایک چیز کی بیع نقد سو میں اور ادھار سوا سو میں ہو تو نقد سو درست اور ادھار سوا  سو سود ہے ابوداود میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : «مَنْ بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَةٍ فَلَہُ أَوْ کَسُہُمَا أَوِ الرِّبَا»سنن ابی داؤد کتاب البیوع-باب فی من باع بیعتین فی بیعة ’’جو شخص ایک بیع میں دو سودے کرے تو اس کے لیے کم تر قیمت والا سودا ہے یا سود ہے‘‘ (3) قسطوں پر خریدی ہوئی چیز کی قیمت جو قسطوں میں ادا کرنی ہے نقد والی ہے تو درست اور جائز ۔ اور اگر قسطوں میں ادا کی جانے والی قیمت نقد قیمت سے زائد ہو تو سود وحرام ہے دلیل پہلے لکھ چکا ہوں ابوداود والی حدیث : «مَن بَاعَ بَیْعَتَیْنِ فِیْ بَیْعَةٍ فَلَہُ أَوْ کَسُہُمَا أَوِ الرِّبَا» ’’جو ایک بیع میں دو بیع کرتا ہے پس اس کے لیے دونوں سے کم ہے یا پھر سود ہے‘‘ (4) سرکاری یا غیر سرکاری ملازمین جس کام پر ملازمت کر رہے ہیں اگر وہ کام شرعاً درست اور جائز ہے تو ان کی ملازمت  وتنخواہ بھی جائز اور درست ہے اور اگر وہ کام شرعا درست اور جائز نہیں تو ان کی ملازمت وتنخواہ بھی جائز اور درست نہیں۔ رہا سودی بنکوں میں اکاؤنٹ تو وہ جائز نہیں خواہ سیونگ ہو خواہ کرنٹ ۔ سیونگ کا ناجائز ہونا تو واضح ہے کہ وہ سودلینے دینے پر مشتمل ہے اور سود لینا دینا حرام ہے اور کرنٹ اس لیے ناجائز ہے کہ اس میں رقم جمع کرانے والا سودی کاروبار میں زبردست تعاون کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿وَتَعَاوَنُواْ عَلَی ٱلۡبِرِّ وَٱلتَّقۡوَیٰۖ وَلَا تَعَاوَنُواْ عَلَی ٱلۡإِثۡمِ وَٱلۡعُدۡوَٰنِۚ﴾--مائدة2 ’’اور مددگاری کرو اوپر بھلائی کے اور پرہیزگاری کے اور مت مددگاری کرو اوپر گناہ کے اور ظلم کے‘‘ کرنٹ والے کی رقم بنک والے دوسروں کو دے کر ان سے سود وصول کریں گے لہٰذا یہ کرنٹ والا ان کا معاون ٹھہرا جبکہ گناہ کے کاموں میں تعاون کرنے سے اللہ تعالیٰ منع فرما رہے ہیں۔ وباللہ التوفیق احکام و مسائل خرید و فروخت کے مسائل ج1ص 353 محدث فتویٰ
Flag Counter