Maktaba Wahhabi

1648 - 2029
جو شخص بینک قانون گورنمنٹ کا ممبر ہو ..اس کے پیچھے نماز کا حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا جو شخص سنٹرل بینک قانون گورنمنٹ کا ممبر ہو اور خود بھی بینک کے زریعےروپیہ سودی بوجہ استقراضاً لیتا ہو۔اورعوام الناس کو بھی کو بھی اس سنٹرل بینک کی طرف رغبت دیتا ہو۔اور ایسے سود لینے کو جائز کہتا ہو۔اور  رشوت وغیرہ اعلانیہ کھاتا ہو۔اور  حد درجہ کا غیبت گو ہو۔حتیٰ کہ علماء کرام موجودہ کی سبھی سخت سے سخت غیبت کرنے میں دریغ نہیں کرتااور نہایت قبیح ۔فحش۔اور فصیح ہو۔ورآں حالیکہ شخص موصوف چند کتب حدیث بھی پڑھا ہو۔اس کے پیچھے نماز ہوسکتی ہے۔یا نہیں۔امامت اس کی اتفاقیہ ہو یا مقررہ؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! شخص مذکور میں اگر واقعی یہ صفات قبیح پائی جایئں۔تو امام نہ بنایا جائے۔ حدیث شریف میں ہے ۔اجعلواالمتکم خیارکم اپنے میں سے اچھے امام کو مقرر کیا کرو۔اور اگر اتفاقیہ پڑھا رہا ہے تو مل جانا چاہیے۔بحکم  وَٱرْکَعُوا۟ مَعَ ٱلرَّ‌ٰکِعِینَ   تشریح۔ بینک وغیرہ سے تعلق رکھنا کیسا ہے سود کےحکم میں ہے یا نہیں۔پس واضح ہو۔(1)سیونگ بنک قائم کرنے کا منشایہ ہے کہ وہ لوگ جو تجارت  پیشہ نہیں ہیں۔اور ان کی رقم ان کے پاس فاضل پڑی ہے۔اس بینک میں جتنا روپیہ چاہیں جمع کریں۔اور سرکار اسے جس مصرف میں چاہے صرف کر کے فائدہ حاصل کرے۔اور اس نفع میں سے بحساب سالانہ فی صدی انہیں بھی کچھ دے۔ 1۔بنا بریں یہ فتویٰ یہاں درج کیاگیا ہے۔راز(مرحوم( اس حالت میں روپیہ جمع کرنے والوں کو بلا مشقت نفع ملتا ہے۔یعنی وہ روپیہ دے کر روپیہ بڑھاتا ہے۔جویقینی ربا کی صورت ہے۔جیساکہ صحیح حدیث سے صاف ظاہر ہے۔لا تبیعو االذہب بالذہب الا مثلاّ بمثل ولا تشقوا بعضہا علی بعض ولا تبیعواالورق بالورق الا مثلاّ بمثل ولا تشقوا بعضہا علی بعض ولا تبیعوامنہا غائباّ بنا جز)متفق علیہ( اور صحیح مسلم میں یوں ہے۔الدینار بالدینار لا فضل بینہما ولدرہم بالدرہم لا فضل بینہما دوسری روایت میں اور بھی صاف کر دیا ہے۔الذہب بالذہب وزناّ بوزن مثلاّ بمثل والفضة بالفضة وزن بوزن مثلاّ بمثل فمن زاداواستزادا فہو رباّ لیکن شراکت فی  تجارت تو اس کی شکل ہی جدا ہے۔کیونکہ اس میں نفع و نقصان پر حصہ لگتا ہے۔اور بینک میں شرط نہیں پائی جاتی ہے۔لہذا اس مد میں روپیہ لگانا تجارت کے تحت سے خارج ہوگیا۔ربا کا اصول ہے کہ اس سے شخص بلا محنت فائدہ حاصل کرتا ہے۔اوردوسرا مفت میں نقصان اُٹھاتا ہے۔اور جزو۔ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ قابل غور ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ بینکوں میں اس کی مثال کہاں تک ملتی ہے۔ظاہر ہے کہ حکومت روپیہ جمع کرانے والے کو انٹرسٹ دیکھ کر اپنا نقصان نہیں کرتی ہے۔بلکہ اس رقم سے فائدہ اُٹھا کر کچھ دیتی بھی ہے۔ اب یہ جاننے کی ضرورت ہے۔کہ گورنمنٹ کو ہمیشہ فائدہ ہی ہوتا ہے۔یا کبھی نقصان بھی اس پر صاحب علم یا وہ اشخاص جو اس معاملےسے واقف کار ہیں۔روشنی ڈالیں۔اگر گورنمنٹ کو نقصان بھی ہوتا ہے۔تو وہ اس کی تلافی کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار کرتی ہوگی۔یا روپیہ جمع کرنے والوں پر اس کا بار آتا ہوگا۔یا رعایا پر اس کا بوجھ ڈال کر اپنا نقصان پورا کرتی ہوگی۔واللہ اعلم اور یہ جبر و تشدد ہمارے روپوں کی بدولت ہو۔غرض یہ کہ ایسے بینکوں میں شرکت کسی بھی طرح درست  نہیں۔ (2)ایک بندہ وہ بھی ہے جو مہاجنی اُصول پرچلتے ہیں۔امانت دار نہیں بلکہ سود خوار اس میں روپیہ جمع کرتے ہیں۔اور تجارت پیشے والے اس سے سودی قرض حاصل  کرتے ہیں۔گویا اس کے قائم کرنے کاخواص منشاء یہی ہوتا ہے۔کہ سود لین اور دین اور اس کی ضرورت نہیں کہ اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے۔اچھے کاموں میں یا بُرے کاموں میں  کیونکہ اس کی بنا ہی سود پر ہے۔جس طرح شراب کی اس کی حرمت پر کسی قسم کا شک و شبہ نہیں۔اس کاسرکہ بنانا دوا میں استعمال کرنا سب ممنوع۔ دوسری بات یہ کہ امانت یعنی روپیہ جو بینک میں جمع رہتا ہے۔اس کا ذمہ دار بینک خود ہے۔اور خسارہ صرف حصہ داروں کوہونا چاہیے۔لیکن چونکہ روپیہ جمع کرنے والے کوبنک بنک سے سود ملتا ہے۔لہذا دیوالہ نکل جانے پر اس کا خسارہ امانت داروں پر بھی پڑتا ہے۔یہ ایک طرفہ ڈنڈہے اورآخرت کا عذاب  اللہ کی پناہ سخت ہے۔امانت کی اگرسچ پوچھیے تو یہ صورت ہی نہیں۔امانت اصل میں اسے کہتے ہیں۔کہ جو چیز جس حالت میں او ر جس قدر بطور امانت رکھی جاوے۔وہ اسی حالت میں اور اسی قدر واپس بھی کسی حالت سے اس میں شرکت بھی جائز نہیں۔ (3)بعض بینکوں میں یہ بھی دستور ہے۔امانت دار جو ان سے سود نہ لے۔تو وہ اس سودی رقم کو عیسائی مشن کے سپرد کر دیتےہیں۔اس میں شک نہیں کہ آج کل کے جتنے سودی بینک اور دیگر مختلف طریقے مروج ہیں سب میں شرکت کرنا قطعی ناجائز ہے۔ 1۔لیکن جو لوگ اس میں گرفتار ہیں۔ان کےلیے مناسب تو یہ ہے کہ باز آئیں۔  ارشاد بار ی تعالیٰ ہے۔ یَـٰٓأَیُّہَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّہَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِیَ مِنَ ٱلرِّبَو‌ٰٓا۟ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ فَأْذَنُوا۟ بِحَرْبٍ مِّنَ ٱللَّہِ وَرَسُولِہِۦ صلی اللہ علیہ وسلم وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُءُوسُ أَمْوَ‌ٰلِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾ اے ایمان والو !اللہ سے ڈر کر سودی کاروبار چھوڑدو۔اگر ایماندار ہو ورنہ پھر اللہ سے جنگ کیلئے تیار ہوجائو۔اس آیت کے آخری حصہ  لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ پر نظر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے۔کہ یہ موجودہ صورت پر  چسپاں نہیں ہوتی۔کیونکہ بینک خود سود دینے پر  مجبور کرتے ہیں۔اور نہ لینے پر عیسائی مشن کے سپرد کر دیتے ہیں۔جو مذہب اسلام کیلئے مہلک ہے۔اس کے متعلق اخبار اہل حدیث میں فتویٰ بھی نکل چکا ہے۔واللہ اعلم بالصواب خلیل احمد ناظم انجمن اہل حدیث مرزا پور (فتاویٰ ثنایئہ۔جلد 2 صفحہ 218) فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 74 محدث فتویٰ
Flag Counter