Maktaba Wahhabi

1652 - 2029
اشد ضرورت کے.... کے واسطے روپیہ قرض لیا.. الخ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ زید نے بہ سبب اشد ضرورت کےاپنی کاشت کھیت کویعنی گنا پر سال آیندہ  کے واسطے روپیہ قرض لیا۔اور قرض روپیہ لینے کے وقت یہ کہا کہ اس وقت میرا کھیت گنا تین ماہ کا بویا ہواہے۔سال آئندہ کو گنا تیار ہونے پر نرخ چھ آنا یا آٹھ آنا فی من بخوشی دوں گا۔اس طرح کی خریدوفروخت شرعاً ٹھیک ہے یا نہیں۔ (ابو محمد عبد اللہ۔لال پور رام پور اسٹیٹ) الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! صورت مرقوم  میں اس بیع کو سلم کہتے ہیں۔جو جائز ہے۔نرخ اور جگہ مقرر ہونی چاہیے۔واللہ اعلم (اہل حدیث امرتسر جلد24صفحہ 10) شرفیہ۔سوال کی عبارت سے اس کا بیع سلم ہونا میری سمجھ میں نہیں آیا۔اس لئے کہ بیع سلم میں راس المال یعنی رقم قرض کی تعین لازم ہوتی ہے۔ ایسے ہی مسلم فیہ اور اجل کی بھی اور صورت مرقومہ میں کچھ بھی نہیں اور شئ معین میں بھی بیع سلم نہیں ہوتی۔اور اجل معلوم سے مراد ماہ دن کی تعین ہوتی ہے۔اور صورت مرقومہ میں تاریخ دن کی تعین نہیں۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من اسلف فی شئی فلیسلف فی کیل معلوم ووزن الی اجل معلوم)متفق علیہ( مشکواة صفحہ 350 وقال فی نیل الاوطار قول فی کیل معلوم احترز بالکیل من السلم فی الاعیان وقولہ معلوم عن المجہول من المکیل والموزون وقد کانو فی المدینہ حین قدم النبی صلی اللہ علیہ وسلم یسلفون فی ثمار نخیل با عیا نہا فنہا ہم عن زلک )جلد 5صفحہ 192( اور صورت مرقومہ فی السوال میں تعین کھیت کی ہے۔وقال فی النیل ان للسم شروطاّ غیر ما اشتمل علیہ الحدیث میسوطة فی کتب الفقہ ولا حاجہ لنا فی التعرض لما لا دلیل علیہ الا انہ وقع الا جماع علی اشتراط معرفة صفة الشئ المسلم فیہ علی وجہ بتمیز بتلک العرفة عن غیرہ صفحہ مذکور پس صورت مرقومہ جائز نہیں  )ابو سعید شرف الدین دہلوی( تشریح۔ بیع سلم نام ہے۔اس بیع کا کہ بالفعل روپیہ دے دیا جائے۔اور جنس ٹھہرا لی جائے۔کہ اتنی مدت تک لوں گا۔مثلاً سو روپیہ ایک شخص کو بالفعل دے دیا۔اور اس سے ٹھہرایا کہ دو مہینے میں گہیوں۔سومن اس قسم کے لوں گا۔اس کو عربی میں بیع سلم کہتے ہیں۔پھر اگرشرطیں پائی جایئں۔تو یہ بیع درست ہے۔جو کوئی بیع سلم کرے اس چیز میں کہ بیچی جاتی ہے تُل کر جیسے زعفران وغیرہ۔تو وزن معلوم میں مثلاً چار تولے یا  پانچ تولے اور ایک مدت معلوم تک جیسے ایک مہینہ یا ایک سال اور مثل اس کے اس سے معلوم ہوا کہ اس میں مدت کا معلوم ہونا شرط ہے۔اور یہی مذہب ہے امام ابو حنیفہ ؒ و مالکؒ واحمدؒ کا حاشیہ ترمذی نو لکشور۔         (فتاویٰ ثنایئہ۔جلد1۔صفحہ 409)  شرائط بیع سلم۔ملحض از بدورالا ہلہ از نواب صدیق حسن خاں رحمۃ اللہ علیہ اول آنکہ قدر مسلم فیہ و جنس آں مذکور گردوزیرا کہ جزباین زکر معلوم نمی تواند شد و شارع معلومیت راشرط کردہ کماتقدم ودوم معرفت امکانش نزدحلول چہ اگر درسلم زکر وصفے کند کہ دال برعدم امکان باشد برغرض مقصود ازسلم عاید بہ نقص گردودوال است برانعدام آں درحال عقد حدیث  عبد الرحمن بن ایزی وعبد اللہ بن ابی ادفی قالا کنا نصیب المغانم مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وکان یاتینا انباط من انباط الشام فنسلفہم فی الخیطة والشعیر و الزیت الی اجل مسمی قیل اکان لہم زرع ام لم یکن قا ل ما کنانسا لہم عن زلک وفی روایة وکنا نسلف علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر و عمر فی الخطة والشعیر والزیت والنمر وما نراہ عندہم اخرجہ ابودائود ونسائی وابن ماجہ وسکوت  نبوی تقریر است۔ سوم آنکہ ثمن مقبوض باشد در مجلس ولا بدست ازین شرط بلکہ سلم تمام نمی شود مگر بایں قبض ورنہ از بیع کالئی1۔بکالئی یاشد وازآں نہی آمدہ وصحیح است بہر حال زیرا کہ ادلہ دلالت ندارند مگر یہ اشراطیت معلومش از برامسلم و مسلم الیہ واین درہمہ اموال ممکن است ودر انکشاف ردی ہماں حکم است کہ گزشت در کیارعیب ودرصرف چہ دلیل دال است بررہ کردن بر صاحب ردی بنا بر عیب چہارم آنکہ اجلش معلوم باشد وین منصوص علیہ نص وحدلول علیہ دلیل مقدم است  )ص262 ( خلاصہ یہ کہ جس  چیز کی بدہنی کی جارہی ہے۔اس کا وزن اور جنس معلوم ہونی چاہیئے۔وقت مقرر پر اس کی وصول پائی کایقین ہونا بھی ضروری ہے۔ قیمت مقررہ طے شدہ کو وقت بیع ادا کر دینا بھی ضروری ہے۔اگر قیمت ادا نہ کی گئی تو ادھار کی بیع ادھار کے ساتھ لازم آگے 1.ادھار کی بیع ادھار کے ساتھ اس طرح کے زید نے بکر کو کچھ مال ادھار فروخت کیا اوروقت مقررہ پر جب وقت قیمت ادا نہ کر سکا تو زید نے پھر دوبارہ ایک مدت کیلئے اس کو بکر کے ہاتھ بیچ دیا۔واملہ النہی عن بیع ما لم یقبض اور یہ منع ہے۔اورہر قسم کے مال میں بدھنی درست ہے۔مگر گھٹیا بڑھیا  کی تشریح ہونی چاہیے۔ورنہ مال والا مختار ہے۔کہ مال ردی دیکھ کر اس کو رد کردے۔اور وقت بھی مقرر ہو کر معلوم ہو جانا شرائط میں سے ہے۔ مصنف عون المعبود قدس سرہ فرماتے ہیں۔قد اختلف العلما فی جوازا السلم فیما لیس بمو جود فی وقت السلم اذا امکن وجود ہ فی وقت الحلول الا فذہب الی جوازہ الجمہور وقالو ولا یضر انقطا عہ قبل الحلول الی اخرہ عون المعبود جلد 3ص292 مولف:بیع سلم یعنی بدھنی کرناکاشتکار وغیرہ سے ساتھ نرخ معلوم کے گندم ہویا جو ہوبصف معاومہ اورساتھ اجل معلوم کے درست ہے۔بلا کراہت جیسا کہ کتب احادیث اور فقہ سے واضع ہوتا ہے۔او ر یہ شرط کر کربدنی کرنا کہ بروقت فصل کے بازار کے نرخ سے سیر دو سیر مثلاً زیادہ لیں گے۔جائز نہیں ہے شرعاً ۔۔۔ (سید نذیر حسین عفی عنہ) (فتاویٰ نزیریہ جلد2 صفحہ11) فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص77-80 محدث فتویٰ
Flag Counter