Maktaba Wahhabi

1655 - 2029
مسلمان کو غلہ کی تجارت سے ایمان بد ل جاتا ہے۔یہ قول صحیح ہے یا غلط؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ مسلمان  کو غلہ کی تجارت نہیں کرنی چاہیے۔اس سے ایمان بد ل جاتا ہے۔یہ قول صحیح ہے یا غلط اور مسلمان کو غلہ فروشی کرنے کے شرعاً مجاز ہیں یا نہیں؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! مسلمان کو  غلہ کی تجارت جائز ہے۔منع ہوتی تو طبقہ اولیٰ کے مسلمان کیوں کرتے حدیث شریف میں احتکار منع ہے۔احتکار کہتے ہیں غلہ بند رکھنا جس سے  لوگوں کو تکلیف ہو۔اورگراں بکے قدرتی موسمی بیشی سے فائدہ اٹھانا منع نہیں۔ تشریح مفید سوال۔کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ تجارت غلہ کی عموماً حرام ہے یا نہیں زیدکہتا ہے کہ تجارت غلہ کی عموما ًحرام ہے۔کیونکہ وہ احتکار ہے اور احتکارحرام ہے۔آیا یہ قول صحیح ہے یا نہیں بینوا توجروا۔ جواب۔ رَّبِّ زِدْنِی عِلْمًا  قول زید کا  بدہیی البطلان ہے۔کیونکہ تجارت غلہ کی عموماً ہر گز حرام نہیں۔اور نہ وہ احتکار ہے۔البتہ خریدنا غلہ وغیرہ کا جو قوت ہو۔آدمیوں کا یا بہائم کا گرانی میں فروخت کیاجائے۔احتکار ممنوع اورحرام ہے۔امام  نوویؒ منہاج و شرح صحیح مسلم بن الحجاج ص 31 میں فرماتے ہیں۔قال اہل الغة الخاطی بالہمزة ہو العا صی الا ثم وہذا الحدیث صریح فی تحریم الاحتکار قال اصحابنا الاحتکار المحرم ہوالاحتکار فی الاقوات خاصة وہوا ان یشتری الطعام فی وقت الغلا ء للتجارة ولا یییعہ فی الحال بل یدخرہ لیغلو ثمنہ انتہی اور  طیبی مرحوم شرح مشکواۃ المصابیح میں لکھتے ہیں۔الا حتکار محرم ہوفی الاقوات خاصہ بان یشتری الطعام فی وقت الغلاء ولا یبعہ فی الحال بل یدخرہ لیغلو انتہی مجالس ابرار میں مرقوم ہے۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من احتکر فہوا خاطی ہذا الحدیث من صحا ح المصابیح رواہ عمر بن عبد اللہ ومعنا ان من یجمع الطعام الذی یجلب الی البلاد یحبسہ لبیعہ فی وقت الغلاء فہوا اثم لتعلق حق العامة بہ وہوا بالحبس والامتناع عن البیع یرید ابطال حق ہم ومتضیق الامر علیہم وہوا ظلم عام وصاحبہ ملعون لما روی انہ علیہ السلام قال الجالب موزوق والمحتکر ملعون فاانہ علیہ السلام بین فی ہذاالحدیث ان الذی یجیئ الی البلاد ویحبسہ لیبعہ فی وقت الغلاء فہوا ملعون بعید من الرحمة ولا یحصل لہ البر کة ما دام فی ذالک الفعل انتہی وفی مجمع البحار من احتکر طعاما ای اشتراہ و حبسہ لیقل فیغلوا والحکر والحکرة الاسم منہ وفی مو ضع  اخر من احنکر فہو خاطیئ بالہمزة المحرم من الاحتکار ما ہو فی الاقوات وقت الغلاء للتجارة ویدخرہ للغلاء انتہی وفی الفتح فیہ اشعار با ن الاحتکار انما یمنع فی حالة مخصوصة انتہی اور اگر بازار سے خرید نہ کرے۔بلکہ اس کی زمین کا ہو۔یا ارزانی میں کرے۔لیکن اس کو روکے نہیں۔بلکہ فوراً بیچ ڈالے۔یاگرانی میں اس کو روکے لیکن تجارت مقصود نہ ہو۔بلکہ مصارف روز مرہ کےلیے اس نے مول لیا ہو یا جنس قوت بشر اور بہائم سے خارج ہو تو ان سب صورتوں میں تجارت مذکور حرام نہیں بلکہ جائز اور درست ہے۔بالا تفاق حنفیہ اور شافعیہ الخ۔ (فتاویٰ ثنائیہ۔جلد2 ص447۔448)     )  (بحوالہ فتاوی نزیریہ جلد2 ص26۔  فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 81-82 محدث فتویٰ
Flag Counter