Maktaba Wahhabi

1666 - 2029
بیع مضاربت کی تعریف کیا ہے۔اور اس کے انعقاد کی مکمل شرائط کیا ہیں؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بیع مضاربت کی تعریف کیا ہے۔اور اس کے انعقاد کی مکمل شرائط کیا ہیں۔ہمارے یہاں غریب طبقہ کے لوگ مہاجن سے اس شرط پر اُدھار لاتے ہیں۔کہ تیار کردہ مال پر فی تھان آنہ یا دو آنہ کمیشن دیں گے۔پھر اپنا کاروبار کرتے ہیں۔مال کا مالک اپنی اصل رقم کے ساتھ باہم میعنہ منافع لینا ہے۔گھاٹے اور نقصان سے اس کا کوئی مطلب نہیں۔کیا یہ صورت جائز اور بیع بالمضاربہ سے ہے یا نہیں؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بیع مضاربہ کی تعریف یہ ہے کہ ایک شخص کی رقم ہو اور دوسرے کی محنت ہو صورت مرقومہ بیع مضاربت نہیں ہے بلکہ دلالی ہے۔ مسئلہ۔کوئی شخص کسی مفلس شخص سے یہ بات کہے کہ میں تجھ کو سو روپے اپنے پاس سے دیتا ہوں۔اس شرط پر کے تو تجارت کر اور چار آنا فی مجھ کو نفع دینااور کسی سے اسی شرط پر دلوا دیئے تو صورت اولیٰ میں دو حال سے خالی نہیں کہ قرض کے طریق سے دیا ہو سوروپیہ پھر اس میں چار آنے یا کمی بیشی اپنے واسطے نفع ٹھہرا ہے تو یہ ربا سود ہے۔1۔کل قرض جر نفعا فہورباکذا قولہ کل قرض جر نفعا الخ حاصل ما قال الزیلعی انہ اخرجہ الحارث عن ابی اسامة فی سندہ ابوالجہم فی جذ ءہ المعروف عن علی مرفوعا وابن عدی فی الکامل عن جابر وسند حما ضعیف وروی ابن ابی شیبہ فی مصنفہ حدثنا ابو خالد الاحمر عن حجاج من عطاء قال کانو یکرہون کل قرض جر منفعة انتہی نصب الرایہ جلد 2 ص198 وفی التخلیص حدیث ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم نہی ان قرض جر منفعة و فی روایہ کل قرض جر فی الہدایہ وغیرہا اور یہ جو بطور شرکت مضاربت کے سو روپے دیئے ہیں تو اس صورت میں نفع با خود ہا نصف نصف مقرر کرے۔یا دو ثلث رب المال اور ایک ثلث مضاربت یعنی روپیہ لینے ولا اور محنت تجارت  میں کرنے والا لے لے۔تو اس طرح سے عقد مضاربت صحیح اوردرست ہے۔اور جو صاحب مال اپنے واسطے نفع معین کر لےکہ پانچ سو روپیہ یا دس روپے مثلاً میں لے لوں گا باقی نفع تم لے لینا۔تو یہ صورت مضاربت فاسد کی ہے۔اور قاطع شرکت ہے روا نہیں چنانچہ تمام کتب فقہ ہدایہ وغیرہ میں مذکور ہے۔او ر صور ثانیہ دلوادینے میں غیر سے اپنی معرفت سے تو اس صورت میں دلوانے والا محض اجنبی ہے۔اور  جو شخص متوسط کسی طرح سے مستحق نفع کا نہیں ہوسکتا۔کما لا یستحق الا جنبی نفعا والعقد فی العنایة وغیرہا (سید محمد نذیر حسین) (فتاوی نذیریہ۔جلد 2 صفحہ 70) بقیہ صفحہ گزشتہ کا منفعة فہوا ربا قال عمر بن بدر نی المغنی لم یصح فیہ شئ واما امام الحرمین فقا ل انہ صح وتبعہ الغزالی وقد رواہ الحارث بن ابی اسامة فی مسندہ من حدیث علی بللفظ الاول وفی اسنادہ سور بن مصعب وہومتروک ورواہ البہیقی فی المرفت فضالہ بن عبید موقوفا بللفظ کل قرض جر منفعة فہوا وجہ من وجوہ ربا ورواہ سنن کبری عن ابن مسعود ابی ابن کعب و عبد اللہ بن سلام موقوفا علیہم انتہی المخیص جلد 3ص 245وقا ل الحافظ فی بلوغ المرام بعد ذکرہ عن علی مرفوعا ولہ شاہد ضعیف عن فضالة بن عبید عند البہقی واخر موقوفا عبد للہ بن سلام عند البخاری انتہی اقول اخرجہ البخاری فی مناقب عبد اللہ بن سلام من طریق سلمان بن حدثنا ثعبة عن سعید بن ابی بردہ عن ابی قال اتیت المدینہ فلقیت عبد اللہ بن سلام فقال الا تجئ فاطعمک سویقا وثمرا وتد خل ثم قال بارض الربا بہا فاش اذا کان لک علی رجل حق فا ہدی الیک لقد قین اوحمل شعیر اوحمل قت فلا تا خز فا نہ ربا انتہی(فتح الباری مصری جلد 2 صفحہ 194 ابو سعید محمد شرف الدین مصح (فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 صفحہ 453۔454)   توضیح البیان مندرجہ بالا عبارات سے ہوا کہ حدیث کل قرض جرمنفعۃ کا اصل ہے۔اگرچہ سنداً مرفوع ضعیف ہے۔لیکن تعدد طرق اور صحابہ کرام  کے اقوال و افعال سے اس حدیث کی تایئد ہے۔لہذا حدیث کا اصل ہے۔فافہم وتدبر الراقم علی محمد سعیدی جامع سعیدیہ خانیوال۔   فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 87 محدث فتویٰ
Flag Counter