Maktaba Wahhabi

168 - 2029
صوفیوں کے ایک مغالطہ کا جواب السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بعض صوفی کہتے ہیں کہ اللہ کا ذکر فرض نماز سے بھی افضل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَلَذِکْرُ اللَّـہِ أَکْبَرُ...٤٥﴾...العنکبوت ’’اور اللہ کا ذکر برا ہے‘‘ تو کیا اللہ کا ذکر نماز سے بھی افضل ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اللہ تعالیٰ نے کثرت سے ذکر کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشاد ہے: ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اذْکُرُوا اللَّـہَ ذِکْرًا کَثِیرًا ﴿٤١﴾ وَسَبِّحُوہُ بُکْرَةً وَأَصِیلًا﴿٤٢﴾...الأحزاب ’’اے مومنو! اللہ کا ذکر بہت زیادہ کرو اور صبح شام اس کی پاکیزگی بیان کرو۔‘‘ اور بتایا ہے کہ اس کی یاد سے لوگوں کو اطمینان نصیب ہوتاہے۔ فرمایا: ﴿أَلَا بِذِکْرِ اللَّـہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ ﴿٢٨﴾...الرعد ’’خبردار! اللہ کی یاد ہی سے دل مطمئن ہوتے ہیں۔‘‘ نبیﷺنے ان سات افراد کا ذکر کرتے ہوئے‘ جنہیں اللہ تعالیٰ اپنے سائے میں جگہ دے گا‘ جس دن اس کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہیں ہوگا‘ ایک وہ شخص بھی بیان فرمایا جو تنہائی میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتا ہے تو اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ پڑتے ہیں۔( مسند احمد ج:۲‘ ص:۴۳۹‘ صحیح بخاری حدیث نمبر: ۶۶۰‘ ۱۴۲۳‘ ۶۴۷۹‘ ۶۸۰۶) اسی طرح اللہ کی یاد کرنے والے کی مثال زندہ سے اور یاد نہ کرنے والے کی مثال مردہ سے بیان فرمائی (صحیح بخاری حدیث نمبر: ۶۴۰۷۔) یعنی اللہ کے ذکر میں دلوں کی زندگی‘ اطمینان‘ صفائی اور پاکیزگی جیسے فوائد پنہاں ہیں اور اللہ تعا لیٰ کے ہاں اس کی بہت فضیلت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نماز سب سے افضل اذکار پر مشتمل ہے۔ یعنی تلاوت قرآن مجید‘ تکبیر‘ تہلیل‘ تسبیح‘ تمحید اور شہادتیں وغیرہ۔ کلام الٰہی انسان کے کلام سے اسی طرح افضل اور برتر ہے جس طرح خود ذات باری تعالیٰ مخلوقات سے برتر ہے۔ لا الہ الا اللہ ایسا کلمہ ہے جو جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے اور سابقہ انبیاء کے فرمائے ہوئے تمام اذکار میں افضل ترین ہے۔( مؤطا امام مالک ج:۱ ص:۲۱۴۔ جامع ترمذی حدیث نمبر: ۳۵۷۹) اور وہ نماز میں موجود ہے۔ اس کے علاوہ نماز میں رکوع اور سجود بھی ہیں اور سجدہ میں انسان اللہ تعالیٰ کے انتہائی قرب کا شرف حاصل کرتاہے۔ لہٰذا نماز کی حالت کے علاوہ جو ذکر کیا جاتا ہے اس کو نماز کے اندر کئے ہوئے ذکر سے افضل کہنے کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم ایک چیز کو اس سے اعلیٰ تر چیز سے افضل قرار دے رہے ہیں۔ ورنہ یہ تو ہی کہ ہم ایک چیز کو خود اسی سے افضل کہہ رہے ہیں اور یہ صحیح نہیں۔ آیت مقدمہ: ﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ ۖ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنکَرِ...٤٥﴾...العنکبوت ’’اور نماز قائم کیجئے۔ بے شک نماز برائی اور بے حیائی سے منع کرتی ہے اور اللہ کی یاد بڑی چیز ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرض نمازوں کو اللہ کے قرر کئے ہوئے طریقے کے مطابق وقت پر ادا کرنا ضروری ہے۔ جس طرح جناب رسول اللہa نے اپنے فرامین سے بھی اور عملی طور پر بھی وضاحت فرمادی ہے۔ اگر مسلمان شریعت کی تعلیمات کے مطابق نمازیں ادا کرتا ہے تو یہ نمازیں اسے بے حیائی والے گناہ کرنے سے روک دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اسے برے کاموں کے ارتکاب سے محفوظ کرلیتا ہے اور جب اللہ تعا لیٰ کو یاد کرتے ہو تو اس کی جزا کے طور پر) اس کا تمہیں یاد کرنا بڑی عظیم الشان اور نہایت اجروثواب والی چیز ہے۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے: ﴿فَاذْکُرُونِی أَذْکُرْکُمْ... ١٥٢﴾...البقرة ’پس تم مجھے یاد کرو‘ میں تمہیں یاد کروں گا‘‘ امام ابن جریر نے اپنی تفسیر میں یہی قول اختیار کیا ہے اور دوسرے متعدد مفسرین نے بھی یہی تشریح فرمائی ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بہت سے صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام سے منقول ارشادات کو بنیاد بنایا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ دارالسلام ج 1
Flag Counter