Maktaba Wahhabi

1706 - 2029
سلامی کا روپیہ شرعا جائز ہے۔یا ۔ناجائز؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ آج سلامی کارواج عام ہے۔مکان کا مالک اپنے کرایہ داروں سے ہزار دو ہزارف پہلے وصول کر لیتا ہے۔اور بعد میں ستر اسی روپے ماہوار پر کرایہ پر دیتا ہے۔جو روپیہ سلامی کے طور پر پہلے وصول کر لیتاہے۔اس کو کرایہ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔یہ سلامی کا روپیہ شرعا ًجائز ہے۔یاناجائز؟(عبد الحکیم قصوری جامع اہل حدیث رنگون) الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اس قسم کا سودا ناجائز ہے۔کیونکہ یہ رشوت کے حکم میں ہے۔(فتاوی ثنائیہ۔جلد 2 ص 451) توضیح رشوت کے معنی ہیں کسی شخص کو کچھ مال اس غرض سے دینا کہ وہ شخص امر باطل اور ناحق پر اس کی اعانت کرے۔اور اس غرض سے جومال دیوے۔وہ راشی ہے اور حدیث میں ان  تینوں پر لعنت آئی ہے۔اور امر حق کو حاصل کرنے کےلیے یا ظلم ظالم کے دفع کرنے کےلیے مال دینا رشوت نہیں ہے۔مجمع البحار میں ہے۔حدیث والرشوة بالکسر والظم وصلة الی الحاجة بالممانعة من الؤشا ء التوصل بہ الی المعاء ومن یعطی توصلا الی اخذ حق اددفع ظلم فغبر داخل فیہ روی ان بن مسعود اخذ با رض الحبشة فی شئ فا عطی دینارین حتی خلی سبیلہ وروی عن جماعة من ائمة التابعین قالوا لا باس ان یصائع عن نفسہ ومالہ اذا خاف الظلم انتہی(فتاوی نذیریہ جلد 2 ص31) ایضاً؛۔از حضرت مولنا عبد السلام دہلوی امر حق کے حصول کے دفع کےلیے مال دینا رشوت سے خارج ہے۔(اہل حدیث دہلی یکم نومبر سن1951ء) (فتاوی ثنایئہ جلد 2 ص257) 1۔عرف عام میں آج کل اس کو پگڑی کہتے ہیں۔(سیعدی) فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 108 محدث فتویٰ
Flag Counter