Maktaba Wahhabi

1758 - 2029
بینک کاسود السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ (جناب مولنا عزیز زبیدی صاحب واربرٹن (شیخو پورہ) انجمن شبان اہل حدیث گوجرانوالہ کے ناظم قاضی عبد القدیرصاحب لکھتے ہیں کہ۔ ایک شخص نے مولانا مودودی صاحب سے پوچھا کہ اگر کوئی شخص غلطی سے کسی ایسے اکاؤنٹ میں روپیہ جمع کر بیٹھے جس میں سود ملتا  ہے تو سود کی رقم ملنے پر وہ کیا کرے۔؟مولانا نے فرمایا وہ  رقم غریبوں میں تقسیم کر دے۔انہی صاحب نے استفسار کیا کہ کیا  اس طرح اسے خیرات کا ثواب ملے گا؟ مولنانے کہا کہ خیرات کا ثواب ملے یا نہ ملے گناہ سے بچنے کا ثواب مل جائے گا۔(ہفت روزہ آئین 24 اکتوبر ص7( کیا مولانا کا یہ جواب صحیح ہے۔؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! گوجرانوالہ میں مستند و اعظ اور نامور علماء کرام موجود ہیں آسانی سے ان کی طرف رجوع کیاجاسکتا تھا کیونکہ اس سلسلے میں وہ سند کی حیثیت رکھتے ہیں اور آپ کے قریب بھی رہتے  ہیں  میں تو آپ کی طرح ان کا ایک طالب علم ہوں۔دنیا کے سیلاب بلا میں سے ایک عظیم بلا اور ابتلاء نظام بینک کاری بھی ہے اس سے نکلنے کےلئے جتنا کوئی شخص پھڑ پھڑاتا ہے اتنا ہی الجھتا چلاجاتا ہے اگر پیسہ گھر میں رکھتا ہے تو اس کے ضیاع کا خطرہ ہے بینک میں رکھتا ہے تو گناہ کا اندیشہ ہے۔ دل کو روؤں یا جگر کو میں            میری دونوں سے آشنائی ہے۔ بہر حال اس صورت کے پیش نظر علماء نے جب اس پر غور کیا تو وہ مختلف نتائج پر پہنچے بعض نے فرمایاکہ بینک کا سود وہ سود نہیں جو اسلام میں ممنوع ہے راقم الحروف کے شیخ الشیخ ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کا یہی نظریہ تھا مفتی جمعیۃ العلماء دہلی دیوبندی کا بھی یہی فتویٰ ہے بعض نے کہا کہ اس کی صورت یہ ہے اگر وہ از خود پیش کرے تو لے لیاجائے۔اگر آپ نے ہی طے کیا ے تو یہ سود ہے اس لئے ناجائز ہے ۔ حضرت مولانا عبد الواحد بن مولانا عبد اللہ الغزنوی کا یہی نظریہ تھا۔بعض بزرگوں نے تصریح کی ہے کہ بینک وغیرہ کا سود لے تو لیا جائے مگر خود خرچ نہ کیا جائے نہ تقرب کے کاموں کےلئے دیاجائے بلکہ لے کر کسی غریب اور نادار کو دے دیاجائے مگر ثواب کی امید نہ رکھی جائے علامہ قاضی اطہرمبارک پوری کا یہی نظریہ تھا ایک قول وہ ہے جو مولانا مودودی نے پیش کیا ہے بعض علماء کاکہنا ہے کہ سودی رقم سود خوروں کےلئے نہ رہنے دی جائے بلکہ ان سے لے کر مضطر لوگوں پر خرچ کی راقم الحروف کے نزدیک دوسے اقوال کی بنسبت مؤخرالذکر نظریہ کچھ گوارا ہے کیونکہ مضطر لوگوں کے لئے ہر مراد جائز ہے۔مگر بقدر کفایت یہ بات تو اس صورت میں ہے کہ  جب کوئی شخص اس میں روپیہ جمع کرابیٹھتا ہے اس نظریہ کوگارا اس لئے کہا ہے کہ اس کی سنگینی پہلے نظریات کی بہ نسبت کم رہ جاتی ہے جہاں تک جواز کی بات ہے  اس کے بارے یں پہلے راقم الحروف کانظریہ پہلے یہ تھا کہ سود خوروں سے بہر حال یہ چھری  چھین لینی چاہیے تا کہ اس کے ساتھ سودی کاروبار کا وہ مزید شکار نہ کرسکیں لیکن مزید غور کرنے پر محسوس ہوا کہ یہ پہلو بھی محل نظر ہے۔ کیونکہ اس کی سنگینی کا احساس دلانے کے بعد اب ہم پر اس کی ذمہ داری نہیں رہی کہ اب اگلا کیاکرے گا۔اگر ہے تو صرف ان کی کہ آپ اس میں اپنا سرمایہ ہی جمع نہ کراتے جوج آپ سے نہ ہوسکا اس لئے اب وہ جانیں اور ان کا کام دوسرا اس لئے کہ وہ ایک نجس مردار اور گندگی ہے سود خوروں کے گھر کو صاف رکھنے کےلیے اپنے گھر کو اس سے ملوث کرناکوئی دانشمندانہ بات نہیں ہے قرآن وحدیث میں حرمت سود کے بارے میں استثناء کا ذکر نہیں کیا گیا اس لئے اس سلسلے میں خود استثنائی صورتیں پیدا کر لینا تشریح ہے جس کے ہم مجاز نہیں ہیں۔بینک کے بعض شعبے ایسے ہوتے ہیں جس میں کہے بغیر سود نہیں لگتا  لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ آپ کے جمع کردہ سرمایہ سے وہ سودی کاوبار بھی نہیںکرتے بلکہ کرتے ہیں آصرف اتنی بات ہوتی ہے جکہ اس میں سے آپ کو جو حصہ ملنا تھا وہ خود رکھ لیتے ہیں آپ کو نہیں دیتے اس لئے جو لوگ بینک سے سود نہ لے کر اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ وہ بری الزمہ ہوگئے ہیں فریب نفس سے زیادہ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں اپنا سرمایہ جمع کرا کے سودی کاروبار کرنے میں آپ نے  بینک کے ساتھ پورا پورا تعاون کیا ہے اور وا تَعَاوَنُوا۟ عَلَی ٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَ‌ٰنِ کی خلاف ورزی کر کے سودی کاروبار میں شرکت کرنے کا ارتکاب کیا ہے۔صحیح اور بنیادی صورت یہ ہے کہ ایسے کاروبار ی اداروں میں اپنا سرمایہ جمع ہی نہ کرایاجائے اگر اجتماعی طور پر ان بینکوں کا بائیکاٹ کیا جائے تو وہ شراکت اور مضاربت جیسے شرعی اصولوں کےمطابق اپنا نظام بینکاری بدلنے پر مجبور ہو جائیں ۔باقی رہا یہ اندیشہ کہ بینک کے بغیر پیسہ کاتحفظ مشکل ہوتا ہے سویہ بیامری صرف نظام بینک کاری میں جاری و ساری نہیں  زندگی کے ہر شعبہ میں اپنا کام کر رکہی ہے کیونکہ اقتدار ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو نہیں جانتے کے اسلام کیا ہے۔ اور اس سلسلہ میں ان کی اپنی زمہ داری کیا ہے اس لئے آپ اس بانہ سے اور کیا یاجائز  کریں گے؟ یقین کیجیے ان میں سے  کچھ بھی ناجائز نہیں صرف دھاندلی ہے اور اس وقت تک دنیا کرتی جائے گی جب تک کوئی عمر نہیں پیدا ہوجاتا اسلامی نظام برحق کے مافی جو جو امور اور دھاندلیاں ہم نے سینے سے لگا لی ہیں وہ خود ساختہ معذرتوں کے سہارے لگا رکھی ہیں ورنہ حقیقت میں وہ شرعی ملازمتیں نہیں ہیں عذر لنگ کے ضن میں آتی ہیں جسے خوئے بدر ابہانہ بسیار سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ عام معذرتیں اور شرعی معذرت معذرت ایک ایسی مکروہ کیفیت کانام رہ گیا ہے جس کا اسلام میں قطعا ًکوئی مذکور نہیں ہے معذرت وقت اور حالات کیایسی کوکھ سے جنم لے رہی ہے جس کے بدلنے کے لئے کوشش نہیں کی جاتی گویا کہ ہم نے ایسی معذرتوں سے سازگاری پیدا کرلی ہے جس کے بعد معذرت معذرت نہیں رہتی معصیت اور مجرمانہ غفلت بن جاتی ہے اس لیے ایسی معذرتوں کے سہارے جو بھی خلا شرع کام کیاجائے اسے شرعی معذرت کے  نام پر حلال نہیں  کیا جاسکتا اس لئے پوری قوم نے بینک کاری کے اسی نظام بد کو بدلنے کےلیے منظم کوشش نہ کرے اپنی معذرتوں کو کھٹائی میں ڈال دیاہے کیونک معذرتیں ناساز گار حالات اور وقت کاحاصل ہوتی ہیں جو لوگ اور قومیں ناساز گار فضاؤں کوبدلنے کیلئے اپنےہاتھ پاؤں بھی مارتی رہتی ہیں تا کہ تبدیل حالات اسلام میں ایسی اقوام اور افراد کی معذرتوں کو قبول کیا جاتا ہے جہاں ایسی بات نہیں ہوتی اور نہ اسن ناسازفگار فضاؤں کوبدلنے کی کوئی منظم سعی اور کوشش کی جاتی ہے۔وہاں اسلام میں ان معذرتوں سے استفادہ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی کیونکہ اب اسے معذرت سزی سے تبدیہ کیاجائے گا۔جس کے معنی ہوتی ہیں کہ ان سے ساز گاری اور ہم آہنگی پیدا کر لی گئی ہے جو بجائے خود السان دشمنی ہے ہاں جو وفاد دیانتداری کے ساتھ اور پوری جدوجہد کوشش اور محنت سے اس غلط نظام کو بدلنے کی کوشش میں بھی  لگے ہوئے ہیں وہ اگر وقت کئی کی حد تک اپنا سرمایہ اس میں جمع کراتے ہیں تو ممکن ہے اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ معذرتیں تصور کئے جائیں اس صورت میں بدرجہ آکر یہی ہوسکتا ہے کہ واقعۃ اگر کوئی مضطر سامنے آگیا ہے تو بینک سے اپنا سود لے کر اس کو سہارا مہیا کرنا چاہے تو اس کےلیےگنجائش نکل سکتی ہے۔ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَیْہِ(پ2بقرہ ع21) ورنہ حرام خوروں کےلیے یہ حرام چھوڑ دیاجائے کیونکہ اب ہمارے بس میں اس سے زیادہ نہیں ہے۔ یَـٰٓأَیُّہَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّہَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِیَ مِنَ ٱلرِّبَو‌ٰٓا۟ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ ﴿٢٧٨﴾ (بقرہ ع38) اس چھوڑنے میں استثناء نہیں ہے اس لئے ان سے نہ وصول کرنا ہی ہماری ذمہ داری ہے اور بس اور جو لوگ اسلامی جذبہ اور فریضہ کے احساس کے تحت ان کو بدلنے کےلئے مناسب تک ودود کئے بغیر اپنے آپ کو معذور تصور کر رہے ہیں۔یقین کیجئے وہ عند اللہ معذور نہیں ہوں گے بلکہ مجرمانہ نظام کے داعیوں کے ساتھ یہ بے غیرت اور کاہل لوگ بھی مجرم قرار پایئں گے کیونکہ اللہ کے ہاں ایسے لوگ بہانے باز اور ظالم قرار  پاتے ہیں زیل کی آیات میں انہی جعلی معذوروں کا زکر ہے۔ إِنَّ الَّذِینَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلَائِکَةُ ظَالِمِی أَنفُسِہِمْ قَالُوا فِیمَ کُنتُمْ صلی اللہ علیہ وسلم قَالُوا کُنَّا مُسْتَضْعَفِینَ فِی الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَکُنْ أَرْضُ اللَّـہِ وَاسِعَةً فَتُہَاجِرُوا فِیہَا ۚ فَأُولَـٰئِکَ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ (پ5 سورۃ النساء  ع 14) چونکہ وہ  لوگ کفار کے نرغے کو معذرت تصور کر کے بیٹھ گئے تھے اور اس کے لئے آخری چارہ کارکی حد تک نکلنے کےلئے انہوں نے کوئی کوشش نہیں کی تھی اس لئے اللہ نے فرمایا تمہاری یہ معذرت مسموع نہیں ہے۔یہی کیفیت آج کل ہماری ہے۔ کہ اللہ کی عطا کردہ رخصتوں کا دامن تھا مے میں تو ہم کوئی سستی نہیں کرتے لیکن اس سلسلے کی اپنی ذمہ داریوں اور تقاضوں سے واسطہ بھی نہیں رکھتے حالانکہ یہ ناجائز ہے۔الخراج بالضمان اس سلسلے کی چند آیات اور احادیث ملاحظہ فرمائیں۔ اگر کسی کو مال دیا ہے بطور قرض یا بطور امانت تو آپ صرف راس لامال لینے کا حق رکھتے ہیں۔ فَلَکُمْ رُءُوسُ أَمْوَ‌ٰلِکُمْ (بقرہ ع38) حدیث وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم صلعم وما کانلہم فی الناسمن دین فلیس علیہم الا راسہ((کتاب الاموال لابن السلام صفحہ 192) زیادتی آپ سے بھی نہیں ہونی چاہیے دوسروں سے بھی نہیں  لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ ﴿٢٧٩﴾اس کی شکل یہ ہے کہ سود چھوڑ دیا جائے ۔ یَـٰٓأَیُّہَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّہَ وَذَرُوا۟ مَا بَقِیَ مِنَ ٱلرِّبَو‌ٰٓا۟ سود قال عن العوض مگر صرف وقت اور مہلت کے بلدے کا نام ہے فرمایا اس کے بجائے اگر تنگی آگی ہے تو اسے مزی مہلت دی جائے نہ یہ کہ مہلت کے عوض اس پر سوار ہونے کی کوشش کی جائے۔ وَإِن کَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَیٰ مَیْسَرَةٍ ۚ صرف  مہلت ہی نہیں اگر صدقہ کا اہل ہے۔تو صدقہ کر دیاجائے تو کیا ہی کہنے۔ وَأَن تَصَدَّقُوا۟ خَیْرٌ لَّکُمْ سود کے مال میں برکت نہیں ہوتی  انجام تباہی نکلتا ہے۔اصل برکت خدا کی رضاجوئی میں ہے۔ َمَا آتَیْتُم مِّن رِّبًا لِّیَرْبُوَ فِی أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُو عِندَ اللَّـہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَمَا آتَیْتُم مِّن زَکَاةٍ تُرِیدُونَ وَجْہَ اللَّـہِ فَأُولَـٰئِکَ ہُمُ الْمُضْعِفُونَ ﴿٣٩﴾(سورۃ الروم ع 4)   خلاصہ یہ ہے کہ  بینک کا سود حرام ہے اس لئے اس  میں سرمایہ جمع ہی نہ کرایا جائے بلکہ اس کو بدلنے کے لیے منظم کوشش کی جائے اب اگر ضیاع کے اندیشے سے اس میں جمع کرانا پڑ گیا ہے۔تو ان پر یہ واضح کرو کہ سود حرام ہے میں نہیں لوں گا الا یہ کہ کوئی مضطر بندہ سامنے آجائے اور اس کو بچانے کےلیے دینا پڑے تاہم اسے  ثواب تصور نہ کیاجائے۔ تاکہ کسی پہلو میں بھی اس سےذہنی سازگاریاور مفاہمت پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ رہے۔ہذا ما عندی واللہ اعلم (الاسلام لاہور جلد2 شمارہ 43) توضیح المفید بر فتاوی علماء حدیث ہمارے اکابرین کی کوششوں سے اور حکومت پاکستان کے صدر مملکت صدر ضیاء الحق کی جدو جہد سے اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی سودی کاروبار کی لعنت کو مضاربت اور شراکت کی صورت میں تبد یل کیا لیکن نافہم لوگ اس کو بھی سود سمجھتے ہیں ایسے لوگ اصل میں سود کی تعریف نہیں سمجھے اللہ توفیق عطا فرمادیں۔(سعیدی خانیوال( استفسارات بینک کاسود۔ چنیوٹ سے ایک دوست ارقام فرماتے ہیں۔ مولانا!السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اخبار اہل حدیث مورخہ 1954 میں فتاوی کے تحت سوال نمبر 280 میں کچھ شک ہے۔وہ دور کیجئے سوال  ہے کہ بینک کی نوکری جائز ہے یانہیں ؟ آپ نے جواب دیاہے کہ بینک  کی نوکری   میں اختلاف ہے۔مگر ٹھیک یہ ہے کہ وہ ناجائز ہے۔کیونکہ بینک کی نوکری کا  سارا کاروبار ہی سود پر مبنی ہوتا ہے۔ اور حرام ہے وغیرہ۔اب عرض ہے کہ 1۔اگر بینک کا کاروبار سارا سودی نہ ہوتا تو پھر کیا اس کی نوکری جائز ہوتی؟ 2۔حرام ہر حالت میں حرام ہے چاہے وہ تھوڑا ہو یا بہت جیسے سود کا گوشت اگر سیر بھر حرام ہے تو ایک لقمہ بھی حرام ہے شراب اگر بوتل بھی حرام ہے تو ایک گھونٹ بھی حرام ہے۔ 3۔ڈاک خانہ کی ملازمت میں سود دیا جاتا ہے لیا نہیں جاتا اور آپ جانتے ہیں کہ سود دینے ۔لینے ولالا۔لکھنے والا ۔گواہ سب ایک ہی جرم کے  مرتکب ہوتے ہیں پھر کیا ڈاک خانہ کی نوکری جائز ہوگی؟ 4۔اگر بینک کی نوکری حرام ہے تو کیا بینک کے کسی ملازم کی ز کواۃ خیرات ۔صدقہ  قبول ہوگا یا نہیں؟ 5۔ہندو تمام سود خوار ہوتے ہیں کیا ان کی نوکری بھی جائز ہوگی یا نہیں؟ اگر وہ اسٹیشن پر اتریں اور مسلمان قلی ان کا سامان اٹھا کر اُجرت لیں تو وہ بھی جائز ہوگی یا نہیں؟ جواب:آپ نے ناحق بال کی کھال اتارنے کی کوشش کی ہے۔جواب میں کہہ دیا گیا ہے  اس میں بعض نے اختلاف کیا ہے اور اختلاف والوں ہی سے ایک آپ بھی ہیں پھر کیا آپ چاہتے ہیں کہ سب آپ سے متفق ہوجایئں۔اور کوئی بھی مخالفت نہ رہے یہ کیوں کر ہوسکتا ہے۔؟جن کو اختالف ہے اختلاف ہی رہے گا آپ کے دلائل جاننے کے باوجود وہ اس سے اختلاف رکھتے ہیں اور صحیح طور پر نیک  نیتی سے اختلاف رکھتے ہیں سنئے اگرکوئی شخص یا ادارہ تجارتی کاروبار کرتا ہو اور سود بھی لیتا ہو تو اس کی ملازمت جائز ہوگی کیونکہ اس کے مکلف نہیں ہیں کہ اس کی تحقیق کرتے پھریں۔کہ آپ کی تنخواہ کس شعبے سے آئی ہے۔جس کی کمائی کا عنصر غالب حلال ہو۔اُس کی اجرت اور مزدوری جائز اور حلال ہوگی۔یہ ایک اصولی چیز ہے جس میں آپ کے تمام جواب آجاتے ہیں۔باقی رہا صدقہ خیرات کی قبولیت کاسوال سو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اصول یہی ہے کہ جو مال مطلق حرام ہو وہ قبول نہیں ہوتا۔ باقی رہا لوگوں سے لین دین وہ جائز ہوگا کیونکہ نوعیت کے بدلنے سے حکم بھی بدل جاتا ہے ۔صدقہ کا مال سادات کرام کےلئے ممنوع ہے۔کسی کو صدقہ ملا تو اس نے حضور کی خدمت میں پیش کر دیا  آپ نے قبول فرمایا تو کسی نے کہہ دیا حضور یہ صدقہ تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس کےلئے صدقہ تھا مگر جب اس کی تملیک میں آگیا تو اس اک حکم بدل گیا اب وہ ہیں بطور ہدیہ دے رہا ہے جو جائز ہے پس اسی حدیث سے اپنے مسئلہ کو بھی حل کر لیجئےے(نائب مدیر)(اہل حدیث سوہدرہ( سوال۔بیان کیا جاتا ہے جکہ اسلام میں سودی لین دین بدترین جرم ہے۔قرآن نے اس جرم کیلئے ہمیشہ عذاب  کی وعید سنائی ہے۔اور حدیث شریف میں اس کے کمتر سے کمتر درجے کے گناہ کو ماں سے بدکاری کے برابر قرار دیا گیا ہے کیا یہ صحیح ہے؟ موجودہ  دور میں سود کے بارہ میں کئی قسم کی مشکلات پیچیدگیاں پیدا ہوگئی ہیں شاید اس لئے عام مسلمان غلط فہمیوں کا شکار ہیں حتی کہ دیندار قسم کے لوگ بھی اب   بے دھڑک سودی لین دین کر رہے ہیں۔وضاحت کیلئے تفصیلی طور پر سود کی عام مروجہ صورتیں بیان کی گئی ہیں۔برائے کرم قرآن و حدیث کی  روشنی میں حقیقت حال سے مطلع فرمادیں تاکہ اس جرم عظیم سے بچا جاسکے۔؟ جواب۔ہاں سودکے متعلق قرآن نے بڑی وعید و دھمکی  سنائی ہے حدیث میں سود کے ستر د رجوں میں سے اونیٰ کو ماں کے ساتھ زنا کرنے کے برابر  قرار دیاہے یہ حدیث سنن ابن ماجہ میں موجود ہے مسلمان جو کچھ کر رہے ہیں۔وہ غیر مسلم کی نقالی کر رہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مسلمان نصرت الٰہی اور عون خدا سےمحروم ہوگئے ہیں۔ سوال۔ہر بینک ہر جمع شدہ رقم کو سودی قرضوں کے لین دین پر لگاتا ہے اس لئے کیا بینکوں میں روپیہ جمع کرانا جائز ہے۔دیگر بینک میں روپیہ جمع کرنے کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ پہلی صورت ۔بینک میں روپیہ جمع  کرانا اور اس کے ساتھ سود بھی وصول کرنا۔ دوسری صورت۔یہ ہوسکتی ہے کہ بینک والوں کو لکھ کر دے دیاجائے کہ ہمیں سود نہیں چاہیے۔اس لئے اصل  کے ساتھ سود کا اندراج نہیں ہوگا۔ اگرچہ اس رقم کو بھی بینک بدستور سودی قرضوں میں لگائے گا۔ تیسری صورت۔یہ ہوسکتی ہے کہ اپنے روپے کو بینک کی تجوری میں رکھ دیا جائے یہ تجوریاں بینکوں میں دستیاب ہیں ان میں لوگ زیورات وغیرہ رکھتے ہیں۔اپنی اپنی تجوری کا کرایہ بینک کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ جواب۔قرآن و احادیث کی رو سے یہ پہلی صورت جائز نہیں ہے کیونکہ اسلام نے غریبوں محتاجوں اور ضرورت مند لوگوں کو بلا سود قرض ملنےے کی صورت میں ایک غریب یا ایک چھوٹا کروباری آدمی اللہ کے فضل سے باآسانی ترقی کرسکتا ہے اس کے مقابلے میں سودا ادا کرنے ک صورت میں مثلا ایک آدمی دس ہزار روپے کا مقروض ماہانہ سود بھی ادا کرے وہ دکان کاکرایہ مکان کا کرایہ بھی برداشت کرے نیز اپنے بال بچے بھی پالے اس طرح اس کا دیوالیہ نکل جاتا ہے ہمارے تجربہ میں ایسے کئی افراد موجود ہیں کہ سودی قرض پر کاروبار کر کے سود کےتلے دب کر اپنی  ملکیتی مکان سے بھی محروم ہوگئے ۔عوام الناس تو  اپنی جگہ ہے دنیا کی چھوٹی چھوٹی حکومتیں بڑی بڑی خونخوار سرمایہ دار حکومتوں کے سود تلے دب کر دم توڑ رہی ہیں  چونکہ اسلام کی انگلی فطرت انسانی کی نبض پر ہے۔اسلام کے نازل کرنے والا عالم الغیب والشہادۃ کو علم ہے کہ یہ سود انسان کے لئے اور اس ک ی ترقی کو تباہ کرنے میں ناسور کی حیثیت رکھتا ہے اس لئے  اسے حرام قرآ دیا ہے سوال میں ذکر کردہ دوسری اور تیسری صورت جائز ہے مگر شرط کے ساتھ   فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 166-174 محدث فتویٰ
Flag Counter