Maktaba Wahhabi

1769 - 2029
گروی کی جو مختلف صورتیں ہیں ان کی وضاحت فرمایئں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ میں کہ مسئلہ گروی کی جو مختلف صورتیں ہیں ان کی وضاحت  فرمائیں۔اور یہ کن کن چیزوں میں ہو سکتی ہے اور کن کن چیزوں میں نہیں نیز جسے پنجابی زبان میں گہنا کہتے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے بعض اسے رہن میں شمار کرتے ہیں اور بعض سود میں براہ کرم وضاحت سے اس مسئلہ کے پر تفصیلی  بحث فرمایئں۔ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! رہن رکھنا در اصل قرض کی حفاظت کے لئے ہے  چنانچہ علماء اسلام رہن کی تفسیر اس طرح کی ہے جعل مال وثیقة علی دین یعنی کسی کے قرض پر کسی مال کو وثوق و حفاظت کا زمہ دار بنانا  جس طرح کوئی قرض لیتے وقت کسی کو ضامن اور کفیل بناتا ہے اس طرح گرو کی صرت میں منقول یا غیر منقول مال و جائیداد کو ضامن و کفیل بنا لیتے ہیں رہن کا مقصد نفع یا سود حاصل کرنا نہیں ہے بلکہ صرف قرض کی حفاظت مقصد  ہوتا ہے جیساکہ وثیقہ لکھتے ہیں مخفف ہوتا ہے لہذا  غیر منقولہ جائیداد کا مثلاً دو کان مکان اور زمین وغیرہ کا کرایہ خود مال ہی لے گا روپے قرض دینے والے کے لئے وہ حرام ہے جیسا کہ آجکل اکثر لوگ کرتے ہیں اسی طرح رہن والے مال کو غرق کردینا بھی حرام اور ناجائز ہے ۔یہ بھی حرام ہے مثلا ایک شخص نے ایک ہزار کی رقم قرض کی ہے اور ڈیڑھ ہزار کا مال رہن رکھا ہے اور شرط یہ تھی کہ وقت مقررہ پر ادا نہ کرنے کی صورت میں اس سے رقم وصول کر لیں اگر قرض ینے والا وقت مقررہ پرشرط کے مطابق ادا نہ کرسکا تو ڈیڑھ ہزار کی دولت کو ضبط کرلیتا ہے یہ ناجائز صورت ہے۔اس صرت میں شرعی قانون یہ ہے کہ اگر وقت مقررہ پر ادا نہ کر سکا اور رقم دینے والے کے پاس مہلت دینے کی گنجائز بھی نہیں ہے تو وہ جائیداد کو فروخت کر کے اپنی رقم ایک ہزار وصول کر لیں اور باقی رقم مالک کو واپس کردیں یہ فروخت کرنا بھی شرط کی صرت میں جائز ہے ورنہ نہیں اور بس۔ اگر رہن والا مال منقولہ ہو مثلا گھوڑا اونٹ گئے اور بھیڑ بکری وغیرہ ایسی صورت میں اگر گرو لینے والا اس کے چارہ وٖغیرہ کے اخراجات برداشت کرتا ہو تو پھر اس کے  عوض میں اس پر سوار ہونا یا دودھ وغیرہ سے فائدہ اٹھا لینا جائز ہے اکثر ائمہ کا مذہب یہ ہے کہ اس طرح فائدہ اٹھانا بھی جائز نہیں ہے اور حدیث کی تاویل کرتے ہیں حدیث سے ظاہر یہی ہے کہ چارے وغیرہ کے عوض میں اس سے استفادہ جائز ہے۔علماء محققین کا ایک گروہ اس طرف گیا ہے اور یہی صحیح معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس کی تایئد میں حدیث موجود ہے۔(ہفت روزہ اہل حدیث لاہور جلد 4 شمارہ 58( فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 186-187 محدث فتویٰ
Flag Counter