Maktaba Wahhabi

1792 - 2029
اگر کوئی شخص ماہ بھاگن میں کسی کو 5 من پختہ گندم اس شرط پر دیوے؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ اگر کوئی شخص ماہ بھاگن میں کسی کو 5 من پختہ گندم اس شرط پر دیوے کہ جب نئی گندم نگلے گی تو ساڑھے 7 من پختہ لے لوں کیا یہ جائزہے۔؟جواب مدلل ہو۔ جواب۔یہ حدیثوں میں منع آیا ہے گندم قیمت مقرر کر کے لےلے اور قیمت مقررہ کرکے بیچے۔(فتاوی ثنائیہ جلد 2 ص408) (اہل حدیث امرتسر ص 13 مارچ24 1933ء( کیا اشیائے مرہونہ  سے مرتہن کو نفع لینا جائز  ہے۔؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! اس مضمون پر اہل حدیث میں علماء نے خامہ فرمائی کی ہے ۔مولوی عبد الستار صاحب و مولوی عبد الجبار صاحب جواز کے قائل ہیں۔اور مولوی عبد الوہاب صاھب عدم جواز کے قائل ہیں نا چیز کچھ تفصیل سےدونوں حضرات کے دلائل بیان کرکے اپنا خیال ظاہر کرتا ہے۔مولوی عبدالوہاب صاحب یا وہ حضرات جو عدم جواز کے قائل ہیں ان کی دلیل یہ روایت ہے لا یغلق الرہن من راہنہلہ غنمہوعلیہغرمہ)ابن حبان( مولوی عبد الجبار صاحب کا یہ فرمانا کہ یہ روایت ایسی کتابوں کی ہے جن میں سے قسم کی حدیثیں ضعیف موضوع مقلوب منقطع مرسل پھری ہوئی ہیں۔میرے خیال میں یہ الفاظ مناسب نہیں  کیونکہ علاوہ صحیحین سنن اربع میں بھی ضعیف مقلوب منقطع  مرسل سے لازم آتا ہے کہ سنن اربع کی روایات ناقابل قبول ہیں۔اہل فن سے لازمی ہے کہ وہ کسی طبقہ کی کتاب کیوں نہ ہو۔سب کی ر وایات پر غور کریں۔ان کی روایت دیکھیں علمائے  محدثین کے کلام پر غور کریں۔کہ انہوں نے کیاخیا ل ظاہر فرمایا ہے بہت ممکن ہوکہ کہ ایسی کتابوں میں صحیح روایات اکثر موجود ہوں۔اور جب کہ حافظ ابن حجر علیہ الرحمۃ علامہ ابن جوزی حافظ ذہبی ایسے حضرات نے اکثر ایسی موضوع اور ضعیف روایتوں کی تخریج فرمادی ہے اس لئے ان کی کتاب سے ایسے کتابوں کے رواۃ کے حالات معلوم ہوسکتے ہیں۔ 1۔حضرت العلام مولا نا عبد الوہاب صاحب آروی کامضمون بہ سرخی اشائے مرہونہ سے نفع ٹھاناجائز نہیں بلکہ سودہے 20 ستمبر  1910 ص 5 اخبار اہل حدیث امرتسر میں ہے اس کاجواب حضرت العلام مولنا عبد الجبار صاحب کھنڈالوی کے قلم سے ہے۔بہ سرخی اشیائے مرہونہ سے نفع اٹھاناجائز ہے سود نہیں 10 اکتوبر 1918 کے اہل حدیث ص9 پر شائع ہوا ہے پھ اس کا جواب مولنا آردی صاحب جنے 20 دسمبر کے اہل حدیث ص7 پرشائع کردیا ہے فریقین کے مضامین نہایت قیمتی معلومات سے پر ہیں ان ہی کی طف جناب   مولانا  بھو پالی نے ارشاد فرمایا ہے افسوس کہ تاوی کی محدود خدمت کے پیز نظر ہم ان علمی مقالات کو مکم طور پر شائد نہ کرسکے شائقین مذکورہ بالاپرجہ جات میں ان  تفصیی مقامات کے  ملالحظہ کرسکتے ہیں۔(مولف راز مرحوم( حافظ ابن حجر رحمۃ  للہ علیہ حدیث متذکرہ بالا کے متعلق تحریرفرماتے ہیں۔حدث  (تلخیص الجیر ص246) حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بحوالہ ابن حزم ایک روایت اور نقل فرمائی ہے  جو یہ ہے۔ (تلخیص الجیر ص 246) غرض اس روایت کا مدار حضرت ابو ہریرہ پر اور کسی صحابی سے یہ روایت معلوم نہیں ہوتی۔اور اس پر  محدثین کا اتفاق ہے کہ اس کے اکثر طرق ضعیف ہیں اور ساتھ ہی مرسل بھی ہے البتہ اگر اور طریقوں سے بصحت مروی ہوتی اور اس کے خلاف کوئی اصح روایت نہ ہوتی تو ضرور قابل عمل ہو سکتی تھی لیکن اس کے مخالف صحیح  روایت موجود ہے۔عن ابی ہریرة عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ کلان یقول الظہر یرکب بنفقة اذا کان مرہونا ولبن الدر یشرب بنفقتہ اذا کان مرہونا وعلی الذی یرکب ویشرب النفقة (نیل  الاوطار ص 102 بحوالہ ترمزی۔ابن ماجہ ابوداد) پہلا مذہب امام ابو حنیفہ۔امام شافعی کا ہے اوردوسرا مذہب امام احمد کاہے امام احمد کے موافق ایک اور حدیث بھی ہے ۔اذا کان الرابة مرہونة فعلی المرتہن علفہا ولبن الدر یشرب وعلی الذی یشرب نفقتہ (رواہ احمد) غرض اس پر اتفاق ہے کہ جس میں لفظ مرتہن کی زیادتی ہے وہ روایت موقوف ہے مرفوع نہیں علامہ شوکانی نے اس قول کی تایئد میں ایک حوالاحماد بن سلمہ کی روایت کا اور دیا ہے۔لیکن اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ مرتہن بقدر مصارف نفع اٹھا سکتا ہے مگر یہ روایت حافظ بن حجر وعلامہ شوکانی نے استشہاداً پیش کی ہے اور اس میں کہیں لفظ مرفوعا نہیں قطع النظر اس کے علامہ ذہبی  کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ حماد بن سلمہ نے امام بخاری نے احتراز کیاہے۔اور امام مسلم نے بطور شواہد ان کی رویات لی ہے۔ حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا جیسا امام بخاری نے فرمایا  وقال ةغیرة عن ابراہم النخ عی تو مغیرہ تک سعید  بن منصور ر نے وصل کیا ہے۔اور اسی روایت کی حمد بن سلمہ نے توضیح کی ہے حافظ صاحب علیہ الرحمۃ اس حدیث الظہر یرکب کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں۔حدیث وفیہ حجة لمن قال یجوذ للمرتہن الا نتفاع بالرہناذا قام بمصلحتہ ولو لم یاذن بہ المالک وہو قولاحمد و اسحاق و طائفة قالوا ینفع المرتہن من الرہنلالرکوبوالحلب بقدر النفقة ولا  تنتفع بغیرہما لمفہوم (فتح  الباری صفحہ بمبر 103 ) اس پر یہ  اعتراض ہوتا ہے کہ شارع علیہ السلام نے کسی صحیح روایت میں انتقاع کو محددود نہیں فرمایا۔اور نہ اس سے ثابت ہوا ہے کہ آپ نے علاوہ سواری اور دودھ کے جانوروں کے انتفاع کو ناجائز قرار دیا  ہو بلکہ یہ حکم عام ہے اور مرتہن کو اختیار ہے کہ وہ جس قدر چاہے اس سے نفع اٹھائے  اور ہر شے مرہونہ سے وہ متمتع ہوسکتا ہے علامہ وقت شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پرنئی روشنی ڈالی ہے فرماتے ہیں میرے نزدیک ان دونوں حدیثوں میں اختلاف نہیں ہے۔اور اس کا سبب یہ ہے کہ پہلی حدیث میں حکم عام ہے مگر جس وقت راہن کو شے مرہونہ کے تلف یا ہلاک کاخوف ہوا ۔اور مرتہن اس کا خرچ  اٹھائی تو ایسی صورت میں لوگ جس قدر انصاف کر دیں اس شئے سے مرتہن نفع اٹھا سکتا ہے گو حضرت شاہ صاحب نے دونوں روایتوں میں تطبیق دینے کی کوشش فرمائی ہے مگر پھر بھی کسی اعتراض متذکرہ بالا کا جواب نہیں ہو سکتا چنانچہ علامہ ابن قیم فرماتے ہیں۔علامہ موصوف نے اس بحث کو نہایت وضاحت سے تحریر فرمادیا تحریر بالاسے تین مذہب معلوم ہوتے ہیں ایک مذ ہب 1۔امام ابو حنیفہ وغیرہ کا کہ انتفاع ناجائز ہے ایک2۔مذہب امام احمد وغیرہ کا کہ شے مہونہ پر جتنا خرچ کیا ہو اسی قدر انتفاع جائز ہے 3 مذہب جو ظاہر حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ انتفاع شے مرہونہ سے جائز ہے اور اس میں شرط فضول ہے کہ جس قدر خرچ کرے اتنا ہی لے کیونکہ انتفاع کے معنی نفع ھاصل کرنا ہے جب مرتہن نے اس پر صرف کیا تو اول تو اس کو اس کا ھساب کتاب کرنادشوار ہےدوسرے وہ اس کی ھفاظت بھی کرے گا۔تیسرے اگر وہ اسی قدر شی مرہونہ سے وصول کرے جس قدر اس نے صرف کیا ہے تو یہ انتقاع کہاں ہویہ خواہ مخواہ کی سردردی ہے ۔پس بقول امام ابن قیم وحضرت سید اسمعیل امریمانی وغیرہ  شے مرہونے سے نفع اٹھانا جائز ہے۔اور جب ان دو کا ثبوت بروایت صحیح ثابت ہے تو اور چیزوں کا بھی اسی پرکر لینا چاہیے۔ناچیز کی تحقیق اس مسئلہ میں یہ ہے اور علماء اس پر روشنی ڈالیں گے ممکن کہ ان شا ء اللہ مفصل اس مسئلہ پر لکھنے کی مجھے ضرورت ہو۔ صلی اللہ علٰی محمد و آلہ وسلم۔(از قلم حضرت مولنا خالد صاحب التصانیف الہدیدۃ) (اندرون اتوارہ بھوپال 29 ربیع الاول 1337 ھ)(فتای ثنائیہہ جلد2 صفحہ 430۔441) فائدہ مرہون۔ چیز مرہون سے فائدہ لینا مرتہن کو جائز نہیں کینوکہ یہ سود ہے اور مسلمان بھائی کامال حرام وجہ سے کھانا ہے۔قرآن میں اللہ نے فرمایا! یَـٰٓأَیُّہَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ لَا تَأْکُلُوٓا۟ أَمْوَ‌ٰلَکُم بَیْنَکُم بِٱلْبَـٰطِلِ ایک اور جگہ اللہ نے فرمایا! لَّذِینَ یَأْکُلُونَ ٱلرِّبَو‌ٰا۟ لَا یَقُومُونَ إِلَّا کَمَا یَقُومُ ٱلَّذِی یَتَخَبَّطُہُ ٱلشَّیْطَـٰنُ مِنَ ٱلْمَسِّ ۚ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا!ان دمائکم واموالکم واعراضکمم حرام علیکمم لحرمة یومکم ہذا وبلد کم ہذاوشہرکم ہذا متفق علیہ اگر مرتہن کھیتی کرے یا مکان کرایہ پر دیوے۔یا حیوان کوکھلائے تو جو کچھ خرچ کرے اس کی آمدنی سے اتنا لے لے  اورباقی اس کے پا س امانت ہے یا تورہن کے قرض میں مشار کرےجب اس کا قرض پور ہوجائے تو مرہون کوواپس کر دےیاوہ باقی فائدہ راہن کو دے دیوےاس کاکھانا مرتہن کو جائز نہیں اس واسطے کہ وہ حرام اورسود ہے صحیح بخاری میں ہے۔قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الظہر یرکب بنفقتہ اذاکان مرہونا ولبنالدر یشرب بنفقتہ اذا کان مرہونا وعلی الذی یرکب ویشرب النفقة اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جتنا خرچ کرے اسی قدر سواریکے ۔اوردودھ پئے اس حدیث کے یہی معنی صحیح بخاری میں ہیں۔ اور فتح الباری میں بھی اس طرح ہے۔بتفصیل تام مطول کے دیکھنے والے متقی پرہیز گار کو اس سے خوب شفاء ہوجاتی اور صحیح بخاری میں ہے۔عن سعید بن ابی بردة عن ابیہ قال اتیت المدینة فلقیت عبد ا للہ بن سلام فقال الا تجی فاطعمم سویقا وتمرا فد خل بف بیت ثم قال انک بارضالربا بہا فاش اذا کانلکعلیجل حق فاہدی الیکحمل تبن حمل شہید اوحمل قت فلاتاخذہ فانہ ربا انتہی ان سب سے یہ معلوم ہواکہ جو کچھ خرچ کرنے کے بعد بچے وہ راہن کودیوے یاس کے قرض میں حساب کرے خواہ مکان مرہون  ہویازمین یاباغ یا حیوان۔اگر راہن خود خرچ کرے تو مرتہن کو کوئی چیز لینی جائز نہیں نہ دودھ پینا نہ سواری کرنا نہ مکان کے کر ایہ کی آمدنی سے لینا اور نہ زمین کی زرعات اورباغ کے پھل سے لینا جائز ہے اس واسطے کہ یہ حرام ہےاور سود ہے واللہ اعلم (عبد لرحمٰن عفی عنہ مدرس مدرسہ حاجی علی جان مرحوم دہلی 23 جمادی الثانی 1339ء) تعاقب انتفاع بالمرہون کے بارے میں جمہور ہر سے مرہونہ میں حرمت کے قائل ہیں اور بعض علماء ظہراورلبن الرد میں جواز انتفاع اور اس کے ماسوا میں مثل جمہور علماءحرمت کے قائل ہیں۔ فتح الباری میں ہے معقول احمد و اسحاق  وطاءفد قالوا ینتفع المرتہن من الرہنبالرکموب والحملب بقدر  الفقة ولا ینتفح بغیرہا انتہی غرضج ماسوا طہر و لبن الدر میں علماء حرمت کے قائل ہیں اور خاص ارض مرہوہنہ کے بارے میں دو حدیثیں آچکی ہیں۔جن کاماحاصل یہ ہے کہ بعد وضع خرچ اخراجات کے جو باقی بچے وہ قرضہ میں منسوب ہوناچاہیے۔یہ مانا کہ ہر دو حدیث اعلیٰ طبقہ کی نہیں ہیں ادنی  کی ہیں لیکن بعض علماء کاقول سے تو ان کی حیثیت کم نہیں ہے س اہل حدیث 2 مارچ 1935 کے جواب نمبر 101 میں میرے خیال میں دور اندیشی اور غور سے کام نہیں لیا گیا جو ربا جیسے نازک معاملے میں ایسا کھلم کھلا فتوی جواز کادے دیا گیا ہے۔ والسلام علی خیرالختام ۔حررہ العاجرومولانا یوسف عفی عنہ (یکم مئی س25 از زیرہ ضلع فیروز پور پنجاب) اراضی مرہونہ کانفع گزارش ہے کہ اخبار اہل حدیث مورخہ 2 مارچ س25 ءکے ص10 کالم نمبر 1 میں سوال نمبر 101 نظر سے گزرا جوکہ اراضی مرہونہ سے فائدہ اٹھانے کے متعلق تھا۔آپ نے اس کے جواب میں فرمایا ہے کہ زمین کی مال گزاری اگر مرتہن کےذمہ ہے تو زمین کی پیداوار حاصل کر سکتا ہے اس پر مولوی محمد یوسف صاحب ساکن زیرہ فیروزپور نے عدم جواز کا تعاقب کیا فرمایا ہے جو اخبار یکم مئی  25 ص10 پر درج ہے میں اس کے متعلق تین اکابر علماء کرام کا فتوی پیش کرتاہوں امید ہے کہ آپ اس کو بھی شائع فرماہیں گے۔ 1۔مولنا مولوی محمد حسین صاحب مرحوم بٹالوی فرماتے ہیں اراضی مرہونہ سے مرتہن کو نفع اٹھانا جائز نہیں بلکہ اس سے نفع لینا راہن کا حق ہے موجب حدیث راہن کورہب رکھنا نفع اٹھانے سے منع کرتا ہے لیکن اراضی مرہونہ سے مرتہن اس وقت نفع اٹھا  سکتا ہے جب کہ تمام مال گزاری ادا کرے اورراہن اجازت دے۔عجز عن النفقۃ علی المرہون بموجب حدیث  الظہریر کب الحدیث گھوڑا وغیرہ جانور اگر گرد ہوں تو  انکی خوراکعوض مرتہن ان پر سوار ہوسکتا ہے اوردودھ پی سکتا ہے یہ دونوں روایتیں مشکواۃ  میں ہیں۔ ابو سعید محمد حسین۔مولانا جوناگڑھی دہلوی۔ان حضرات کی دلیل بھی یہی حدیث ہے مولوی صاحب کے الفاظ یہ ہیں اگر اراضی مرہونہ پر کل اخراجات مرتہن خود کے اور راہن کے زمے حالت  رہن مین کوئی خرچ نہ ہو تو اعلب مرتہن کونفع بعوض اپنے نفقہ کے جائز ہوگا۔جمہور کا مذہب اس کے خلاف ہے مولوی ابو طاہر صاحب کے مختصر الفاظ یہ ہیں۔کلام فی الانتفاع بالارض المرہونة اذا کانالمئون علیہمن نفقة وغیرہا مملا تدعولا علیہ الحاجة (محمد امین ازامرتسر کٹڈہ بھائی) مدیر مولوی محمدامین صاحب نامہ نکار ہذا نے یہ تینوں فتوے قلمی مجھے دکھائے ہیں واقعی  ان تینوں صاحبوں کے دستخط ہیں 22 مئی س25ء) فتوی بابت انتفاع  از مرہونہ جناب مولانا صاحب مہربانی کر کے بغرض فائدہ عام فتوی ہذا شائع فرما دیں۔عین الدین دلب  پوری شے مرہون کے ساتھ نفع لینے میں اجازت راہن کو کچھ دخل نہیں بلکہ سود ہے مگرچند اشیاء مرہونہ سے نفع لینا جائزاہے۔قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  اظہر یرکب بنفقتہ اذا کان مرہو نا ولبن الدریشرب بنفقتہ اذا کان مرہونا رواہالبخاری وغیرہ اس حدیث میں بسبب نفقہ کے مرتہن کو اشیاء مرہونہ سے فائدہ درست کہا گیا ہے ان اشئاءے مرہونہ کے ساتھ اور بھی بقیاس لاحق ہوسکتی ہے بعلت نفقہ اور کسب بھی مثل نفقہ ہے اگر زمین رہن رکھ کر خود آباد کیاپنے نفقہ و کسب میں جوا زنکلتا ہے۔قال الشوکانی فی النیل فتکون الفرائد المنصوص علیہا فی الحدیث للمر تہن ویلحق غیرہا من الفوائد بہا القیاس لعدم الفاؤق والکسب من جملتہا فلا وجہ للفرق بینہ وبینہا فنکون کلہا للمرتہن والمءون علیہم نفقة وغیرہا مما تد عو بہ الحاجة المرتہن انتہی اور اگر علت نفقہ و کسب اپنا نہ ہو تو شے مرہون سے فائدہ لینا سود و ناجائز ہے لگان و مال گزاری مرتہن ادا  کرے نہ  راہن ۔واللہ اعلم و علمہ اتم حررہ احمد 1۔سلمہ الصمدمدرس  مدرسہ حاجی علی جان دہلی۔قال فی الفتح ونیہ حجة لمن قال بجواذ للمرتہن الا نتفاع بالرہن اذا قام بمصلحتہ ولولمیاذنالمالک ہاں اگر مرتہن لگان اور مال گزاری اس زمین کی ادا نہ کرے تو البتہ سود ہوگا۔ حررہ ابو طاہر البہاری عفی عنہ الباری المدرس الاول فی المدرسہ احمدیہ الکائتافی البلدۃ آرہ 24 محرم سن 39ء( مرتہن کو اشیاء مرہونہ سے فائدہ اٹھانا لا ریب جائز اور درست ہے؟ اخبار اہل حدیث مورخہ 26 جولائی سن 1918 ء میں کسی صاحب کی طرف سے یہ مضمون نکلاہے کہ اشیاء مرہونہ کے ساتھ فائدہ اٹھانادرست ہے یا نہیں۔ جواباً!گزارش ہے کہ جائز و درست ہے۔اخرج البخاری بلفظ الظہریر یرکب بنفقتہ اذا کان مرہونا  ولبن الدر یشرب بنفقتہ اخرجہ ابن ماجو عن ابی ہریرة مرفوعا وابوداود عنہ لبن الدر یحلب بنققتہ اذا کان مر ہونا والظہؤریرکب بنفقتہ اذل کمان مرہونا  وعلی الذی یحلب ویرکب النفقة قال ابوداود وہوعندنا صحیأح انتہی واخرج الترمذی عنہ مرفوعا الظہریر کب اذل کان مرہونا ولبن الدر یشرب اذا کان مرہونا وعلی الذی یرکب وعلی یرمکب ویشرب نفقتہ قال الترمذی ہذا حدیث حسن صحیح واخرج الحامم والدار قطنی من حدیث ابی ہریرة مرفعا الرہن مرکوب ومحلوبز خلاصہ ان تمام روایتوں کا یہ ہے کہ اشیاء مرہونہ سے فائدہ  جائز ہے مگر بعض عالم یرکب و یشرب کافاعل راہن کو بتاتے ہیں اور بعض مرتہن کو فریق ثانی کا قول حق ہے۔اس لئے کہ بعض روایت میں لفظ مرتہن آ چکا ہےچنانچہ وہ روایت یہ ہے۔حدثنا احمد بن داود حدثنا اسمعیل بن ابراہیم الصاعخ حدثنا ہشیم عن زکریا عنالشعبی عن ال شعبی عن ابی ہیرة مرفوعا اذا کانت الرابة مرہونة فعلی المرتہن علفہاولبن ال=ر یشرب وعلی الذی ی نفقتہا شرب 1۔حضرت شیخ الحڈیث مولانااحمد اللہ پرناب گڑھی ثم الدہلوی رحمۃ اللہ علیہ کے  از مشاہیر و اکابر اہل حدیث (سعیدی( اس حدیث سے صاف معلوم ہوا کہ مرتہن ہی یرکب و یشرب کا فاعل ہے باقی جو احادیث اس کے مخالف ہیں اوس تو ضعیف ہیں ثانیا وہ اس کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ان احادیث میں مرتہن کو اشیاء مرہونہ کے ساتھ اور کسی قسم کی شرط جو جر منفعت  میں ہو اس سے روکا گیاجیسا کہ صاحب سبل السلام وغیرہ نے کہا ہے صاحب علام الموقعین نے اس  بحث کوبسط کے ساتھ لکھا ہے ۔ (عبد الستار کالنوری نزیل دہلی 8 زیقدہج سن36ھ) )فتاوی ثناییہ جلد 2 ص16۔17( گروی سے نفع اٹھانے کے عدم جواز پر نئی دلیل ۔ اس حدیث سے گروی شئ سے فائدہ اٹھانا بھی نا جائز ثابت ہوا کیونکہ جب بیع میں صرف ایک شرط ہونے کی صورت یں فائدہ اٹھانا جائز نہیں ہے تو گروی جسمیں شئ بالکل  مالک کی رہتی ہے اس سے فائدہ اٹھانا کس طرح جائز ہوگا اوربیع اس کو نہیں بنا سکتے کیونکہ فریقین اس کو بیع نہیں بتاتے بر خلاف سوال کی صورت کے کہ فریقین نے اس کو بیع بنایا اوربیع میں لکھایا اس لئے  کہ سوال کی صورت کو ہرجگہ گروی کا حکم دے سکتے  اور مروجہ گروی کا حکم گروی ہ کارہے گا اور اس سے  فائد اٹھانا سو رکے حکم میں ہوگا۔ )عبد اللہ امرتسری 12 فروری سن1960ء) (فتاوی اہلحدیث صفحہ 32(   فتاویٰ علمائے حدیث جلد 14 ص 208-116 محدث فتویٰ
Flag Counter