Maktaba Wahhabi

1806 - 2029
مذاکرہ علمیہ بابت حدیث "الربوا" السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ مذاکرہ علمیہ بابت حدیث "الربا" الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! مذاکرہ علمیہ بابت حدیث لعن رسول للہ صلی اللہ علیہ و سلم اکل الربوا وموکلہ اس مذاکرہ میں جو استفسار کیا گیا ہے۔ اس کا خلاصہ بعنوان سوال یہ ہے۔ سوال۔ مشکواۃ شریف میں ہے۔ عن جابر قال لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکل الربوا وموکلہ وکاتبہ وشاہد یہ وقال ہم سواء (رواہ مسلم) یعنی حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کھانے والے بیاج کھلانے والے اور بیان کے لکھنے والے اور بیاج کے دونوں گواہوں پر لعنت کی ہے۔ اور فرمایا کہ یہ سب برابر ہیں۔ روایت کیا اس کو مسلم نے اس حدیث کی شرح یوں کی جاتی ہے کہ بیاج کھانے والا وہ شخص ہے جو بیاج لیتا ہے۔ اور کھلانے والا وہ ہے۔ جو بیاج دیتا ہے اس کی فرع یہ ہے کہ بیاج دینا بھی گناہ ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس حدیث کی یہ تشریح نہیں ہوسکتی۔ کہ بیاج کھلانے والا وہ ہے جو وہی بیاج کسی دوسرے کو کھلائے اس تشریح سے کون قرنیہ مانع ہے۔ اگر یہ تشریح صحیح ہے۔ تو اس حدیث سے بیاج دینے کی حرمت اور اس کا گناہ ہونا ثابت نہیں ہوگا۔ بینوا توجروا الجواب۔ اس حدیث کی یہ تشریح کہ ''بیا ج کھانے والا وہ شخص ہے جو بیاج لیتا ہے۔ اور کھلانے والا وہ ہے جو بیاج دیتا ہے صحیح اور حق ہے اور اس حدیث کی تشریح کہ بیاج کھانے والا وہ ہ جو خود کھائے اور بیاج کھلانے والا وہ ہے جو وہی بیاج کسی دوسرے کو کھلائے باطل اور غلط ہے۔ دلیل اس کی یہ ہے۔ کہ قرآن وحدیث میں آکل ربا کا لفظ جہاں جہاں وارد ہوا ہے۔ ہر جگہ اس سے مراد ہے۔ عام ازیں کہ بیاج لینے والا اس بیاج کو خود کھائے یا کسی دوسرے کو کھلائے اور آکلین ربا کےلئے جو جو وعیدیں آئی ہیں۔ وہ مطلق بیاج لینے والوں کےلئے ہیں۔ جو بیاج خود لے کر کھایئں اور اپنے مصرف میں لایئں۔ اور ان بیاج لینے والوں کے لئے بھی ہیں جو بیاج لے کرخود نہ کھائیں بلکہ دوسروں کو کھلائیں۔ الغرض عرف شریعت میں آکل ربا کے معنی بیاج لینے والے کے آتے ہیں عام ازیں کہ وہ بیاج لے کر خود کھائیں یا دوسروں کو کھلائیں مثلا فرمایا اللہ تعالیٰ نے ۔ یَا أَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا لَا تَأْکُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً یعنی اے ایمان والو۔ مت کھاؤ بیاج دونے پردونا ۔ 2۔ اور فرمایا۔ الَّذِینَ یَأْکُلُونَ الرِّبَا لَا یَقُومُونَ إِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ یعنی جو لوگ بیاج کھاتے ہیں۔ وہ نہ اٹھیں گےقبروں سے مگر جیسا کہ اٹھتا ہے وہ شخص جس کو باولا کرتا ہے شیطان آسیب سے۔ 3۔ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے درہم ربا یاکلہا الرجل وہو یعلم اشد من ستة وثلاثین زنیة کذافی المشکواہ  بیاج کا ایک درہم جس کو کوئی شخص جان کر کھائے چھتیس زنا سے زیادہ سخت ہے۔ 4۔ اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میں شب معرا ج کو ایک اسی قوم پر گزرا کہ ان کے پیٹ گھروں کے مثل تھے جن کے اندر سانپ تھے اور پیٹ کے باہر سے نظر آتے تھے میں نے جبر یل سے کہا کہ یہ کو ن لوگ ہیں ، جبریل نے کہا کہ یہ لوگ بیاج کھانے والے ہیں۔  ظاہر ہے کہ ان نصوص ان کے امثال میں آ کل ربا یعنی بیاج کھا نے والے سے مراد بیا ج لینا ہےعام ازیں کہ اپنے کھا تے کے لئے لیتا ہو یاکسی کو کھلا نے کے لئے اور آکلین ربا یعنی بیاج کھانے والے سے مراد بیاج لینے والے ہیں عام ازیں کہ بیاج لے کر خود کھائیں یا دوسرے کو کھلا ئیں۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فتح الباری میں لکھتے ہیں۔ انما خص الاکل بالذکر لان الذین نزلت فیہم الایات المذکورة کانت طعمتہم من الربوا والا فالوعید حاصل لکل من عمل بہ سواء اکل منہ ام الاانتہی  جب تم یہ معلو م کر چکے تو سنو حد یث مذ کو ر میں بھی اکلہ یعنی بیاج کھانے والے سے مرادبیا ج لینے والا ہے عام ازیں کہ بیاج لے کر خود کھائے یا کسی دوسرے کو کھلائے اور جب آ کلہ سے مراد بیاج لینے والا ہوا تو موکلہ سے بیاج کھلانے والے سے وہ شخص ہر گز مراد نہیں ہو سکتا جو بیاج کر خو دنہ کھائے کیو نکہ اس معنی پر لفظ آکلہ خود مشتمل ہے پھر موکلہ سے یہ بھی کیونکہ مراد ہو سکتا ہے بلکہ لامحالہ موکلہ سے بیاج دینے والا مراد ہو گا موکل متعدی ہے آکل کا پس جب آکل کا معنی بیاج لینے والا ہو تو موکل کے معنی بیاج دینے والا ہوگا۔  دوسری دلیل بیاج لینا بزاتہ گناہ کاکام ہے اور بیاج د ینا اور بیا ج کی گتا بت اور گواہی کر نی بھی گناہ کاکام ہےمگر بزاتہ نہیں اس وجہ سے کہ اعا نت علی الا ثم ہے اور ظاہر ہے کہ بیا ج دینا اول نمبر کی اعا نت ہے اور اس کی کتا بت و شہا دت نمبر دو میں ہے پس اس حد یث میں اگر موکلہ سے مراد بیاج دینے والا نہ ہو تو بلکہ وہ شخص مراد ہو جو بیا ج لے کر کسی دوسرے کو کھلائے تو لازم آتا ہے کہ اول نمبر کا معین علی الر باملعون نہ ہو۔ وھو کماتری  تیسر ی دلیل۔ دارقطنی ص 299 میں ہے۔ عن ابی سعید الخدری قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الاخذ والمعطی من الربوا سواء  یعنی ابو سعیدخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بیاج لینے والا اور بیاج دینے والا یہ دونوں برابر ہیں مشکو ۃ شریف میں ہے۔  عن ابی سعید قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الذہب بالذہب والفضة بالفضة والبر بالبر والشعیر بالشعیر والتمر بالتمر والمللح مثلا بمثل یدابید فمن زادا والستزاد فقد اربی الاخذ والمعطی فیہ سواء  (رواہ مسلم)  یعنی حضرت ابو  سعید خدریرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچو سونے کو سونے سے اور چاندی کو چاندی سے اور گہیوں کو گہیوں سے اور جو کو جوسے اور کھجور کو کھجور سے اور نمک کو نمک سے  برابر بر ابر دست بدست پس جس نے زیادہ دیا یا زیا د ہ طلب کیا تو اس نے بیاج کا معا ملہ کیا بیاج لینے والا اور بیاج دینے والا دو نوں برابر ہیں روایت کیا اس مسلم نے ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایتیں بتاتی ہیں کہ حد یث  لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکلہ الربا وموکلہ  میں بیا ج کھانے والے سے مراد بیاج لینے والا ہے اور بیاج کھلانے والے سے مراد بیاج دینے والا ہے ۔ والروایات یفسر بعضہا بعضا الحاصل حدیث مذکور کی یہ تشریح کہ بیاج کھانے والا وہ شخص ہے جو بیاج لیتا ہے اور کھلانے والا وہ شخص ہے جو بیاج دیتا ہے صحیح اور حق ہے اور اس کی دوسری تشریح غلط اور باطل اور بال شبہ آخذ اور معطی دونوں گناہ گار ہیں اور جیسے بیاج لینا حرام ہے دینا بھی حرام ہے، (ہذاما عندی واللہ تعا لی ا علم) (الراقم محمد اصغرمبارکپوری مدرس مدرسہ اسلامیہ مبارکپور اعظم گڑھ ) (اہلحدیث 14 اپریل 16ء)   فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 ص 387 محدث فتویٰ
Flag Counter