Maktaba Wahhabi

1818 - 2029
صدی مال بعد از توبہ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک شخص نے سود کےساتھ بہت سا روپیہ جمع کیا ہے بعد ازاں سود سے توبہ کی کہ آگے سود نہ لوں گا سابقہ روپیہ سودی جمع شدہ کھانا جائز ہےیا نہیں ؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! سود کی بابت قرآن مجید میں ارشاد ہے، فَمَن جَآءَہُۥ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّ‌بِّہِۦ فَٱنتَہَیٰ فَلَہُۥ مَا سَلَفَ.سود کے بارے میں خدا کی طرف سے جس کو نصیحت آپہنچے پھر وہ باز آئے تو جو گزرا وہ اس کا ہو ا اور جو رقم ابھی مقروض کے ذمہ ہےاس کی بابت ارشاد ہے وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُ‌ءُوسُ أَمْوَلِکُمْ اگر تم تو بہ کرو تو تم اصل مال کے مالک ہو گے سود تم کو نہیں ملے گا ،  (۱۰شوال ۱۳۳۴ء؁) تشِریح از مولانا عبدالسلام صاحب شیخ الحدیث ریاض العلوم دہلی س:۔  زید دس سال سے سود ی لین دین کر رہا ہے آج خدا سے ڈرکر توبہ کرتاہے اور اپنے کل مال زکوۃ نکالتا ہے لوگوں کے ذمے باقی ماندہ سود کو چھوڑ دیتا ہے لیکن جو مال اس نے سود لے جمع کیا ہے اس میں اصل بھی ہے آیا یہ مال پاک ہے یا نا پاک؟ ج:۔  سود کا لینا دینا ہر صورت میں حرام ہے توبہ کرنے سے معاف ہو جائے گا قبل از توبہ حلال و مخلوط از سود مال توبہ کے بعد پاک ہو جائے گا توبہ کرنے سے شرک و کفر تک معاف ہو جاتے ہیں انہیں گنا ہ کبائر میں سے سود بھی ہے وہ بھی معاف ہو جائےگا نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا! التائب من الذئب کمن لا ذنب لہ  (گناہوں سے توبہ کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے گناہ کیا ہی نہیں  ) مسئلہ مذکور میں  قرآن اپنے ان الفاظ میں ناطق ہے ، آیت  (رضی اللہ  تعالیٰ عنہ ) الَّذِینَ یَأْکُلُونَ الرِّبَا لَا یَقُومُونَ إِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِی یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَٰلِکَ بِأَنَّہُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّـہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَہُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّہِ فَانتَہَیٰ فَلَہُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُہُ إِلَی اللَّـہِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـٰئِکَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ ہُمْ فِیہَا خَالِدُونَ  (البقرہ) ترجمعہ:۔  جو لوگ سود کھاتے ہیں ، نہیں اٹھتے ہیں ، مگر جیسےوہ شخص جس کو شیطان نے اچک بہا ہو،  (یعنی مجنون ) یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے خرید فروخت اور سود کو ایک کہا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے خرید فروخت کو حلال کیا ، اور سود کو حرام ، تو جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیحت آجانے کے بعد یا رز رہے ، تو وہ حلال اسی کا ہے جو اس نے پہلے لیا اس کا امر خدا کے سپرد ہے لیکن جو باز نہ آئے ، وہی اہل نارمیں سے ہے جواس میں ہمیشہ رہیں گے، اللہ تعالیٰ کے قول فلہ ماسلف سے معلوم ہو تا ہے کہ جو مال توبہ سے پہلے اور حرمت سے پہلے لے چکا ہے اس کا رکھنا اس کے لئے جائز ہے اس کے واپس کرنے کا صراحۃ حکم نہیں ہے چنانچہ حافظ ابن کثیر اپنی تفسیر میں اس آیت کریمہ کی تفسیر میں فرماتے ہیں ، فمن جاءہ مو عظة من ربہ فانتہی فلہ ما سلف وامرةالی اللہ الاٰیة ای من بلغہ نہی اللہ عن الربوا فانتہی حال وصول المشرع الیہ فلہ ما سلف من المعاملة لقولہ  عفااللہ عما  سلف وکما قال النبی صلی اللہ علیہ والہ سلم یوم فتح مکة وکل ربانی الجاہلیة مو ضوع تحت قدمی ہا تین راول ربا العباس ولم یا مرہم برد الزیادات الماخوذة فی الجاہلیہ بل عما سلف کما قال اللہ فلہ ماسلف وامرہ الی اللہ الخ. اور تفسیر مواہب الرحمن میں آیت کریمہ کا ترجمہ اس طرح لکھا ہے یعنی جس شخص کے  پاس آگئی نصیحت اس کے رب عزوجل کی طرف سے پس وہ بازر رہا یعنی سود کھانے سے تو جو گزر چکا ہے وہ اس کے لئے ہے ۔  (فائدہ) یعنی وہ سود اس سے واپس نہیں لیا جائے گا جو حکم الہٰی کے پہنچنے سے پہلے وہ جمع کر چکا ہے الخ اور اگر توبہ کے وقت اصل رقم اور سود کے مال سے لوگوں کے ذمے بانی ہے تو توبہ کے بعد اپنی اصل رقم کو لے لے اور سود کو چھوڑ دے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرماتا ہے :۔   یَـٰٓأَیُّہَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّہَ وَذَرُ‌وا۟ مَا بَقِیَ مِنَ ٱلرِّ‌بَو‌ٰٓا۟ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ فَأْذَنُوا۟ بِحَرْ‌بٍ مِّنَ ٱللَّہِ وَرَ‌سُولِہِۦ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُ‌ءُوسُ أَمْوَ‌ٰلِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ. (البقرة) . اے ایمان والو !ڈرو اللہ سے ، اور چھوڑدو جو وہ گیا ہے سود سے اگر تم کو یقین ہے پھر اگر نہ کرو گے تو خبر دار ہو جاؤ لڑنے کو اللہ اور اس کے رسول سے ، اگر توبہ کرو گے تو تم کو پہنچتے ہیں اصل مال ، نہ تم کسی پر ظلم کرو اور کوئی تم پر ظلم کرے،  (اہلحدیث دہلی ۱۵مئی ۱۹۵۴ء؁)   فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 ص 443 محدث فتویٰ
Flag Counter