Maktaba Wahhabi

1820 - 2029
بینک سے صدی قرض لینا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا جو شخص سنٹرل بنک قانون گورنمنٹ کا ممبر ہواور خود بھی بینک کے ذریعے روپیہ سودی بوجہ استقراضاً لیتا ہو اور عوام الناس کو بھی اس سنٹرل بینک کی طرف رغبت دیتاہو ، اور ایسے سود دینے کو جائز کہتا ہو اور رشوت وغیرہ اعلانیہ کھاتا ہو اور حد درجہ کا غیبت کرنےوالا ہو کسی شخص حتی کہ علمائے کرام موجود گی میں بھی سخت سے سخت غیبت کرنے میں دریغ نہیں کرتا اور نہایت قبیح متفحش اور فضیح ہو اور یہ شخص موصوف چند کتب حدیث بھی پڑھا ہو اس کے پیچھے نماز ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ امامت اس کی اتفاقیہ ہو یا مقررہ  )ابوسعید از نیمچہ کلاں(  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! شخص مذکورہ میں اگر واقعی یہ صفات قبیحہ پائی جائیں تو امام نہ بنایا جائے حدیث شریف میں ہے ، اجلعو ائمتکم خیا رکم،  (اپنے میں سے اچھے شخص کو امام مقرر کیا کرو) اور اگر اتفاقیہ پڑھا رہا ہے تو مل جانا چاہیئے بحکم وَارْکَعُوا مَعَ الرَّاکِعِینَ  (۱۱ مارچ ۱۹۲۷ء؁) س:۔  بینک وغیرہ سے تعلق رکھنا کیسا ہے؟  سود کے حکم میں ہے یا نہیں ؟ تشریح پس واضح ہو کہ:۔    (۱) سیونگ بینک قائم کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ لو گ جو تجارت پیشہ نہیں ہیں اور ان کی رقم ان کے پاس فاضل پڑی ہے اس بینک میں جتنا روپیہ چاہیئے جمع کر یں اور سرکار اسے جس مصرف میں چاہے صرف کرکے فائدہ حاصل کرے ، اور اس نفع میں سے بحساب سالانہ فی صدی انہیں بھی کچھ دے ، اس حالت میں روپیہ جمع کرنے والے کو  بلا مشقت نفع ملتا ہے یعنی وہ روپیہ دے کر روپیہ بڑھاتا ہے جو یقینی ربا کی صورت ہے جیسا صحیح حدیث سے صاف ظاہر ہے لا تبیعو الذہب بالذہب الا مثلا بمثل ولا تشفو ابعضہا علی بعض و لا تبیعو االورق بلورق الا مثلا بمثل ولا تشفو ابعضا علی ولا تبیعو امنہا غائبابتاجز (متفق علیہ) . اور صحیح مسلم میں یوں ہے، الدینا ربا لدینار لا فضل بینہما والدرہم بالدرہم لا فضل بینہما. دوسری روایت میں اور بھی صاف کر دیا ہے ، الذہب بالذہب وزنابوزن مثلابمثل والفضةبالفضةورنابوزن مثلابمثل فمن زادا واستزادفہوریا . لیکن شراکت فی البخارت تو اس کی شکل ہی جداہے کیوں کہ اس میں نفع و نقصان پر حصہ لگتا ہے اور بنک میں یہ شرط نہیں پائی جاتی ، لہذا اس مد میں روپیہ لگانا تجارت کے تحت سے خارج ہو گیا ، ربا کا اصول ہے کہ اس سے ایک شخص بلا محنت فائدہ حاصل کرتا ہے اور دوسرا مفت میں نقصان اٹھاتا ہے اور یہ جزولا لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ قابل غور ہے اور یہ دیکھنا چاہیئے کہ بنکوں  میں اس کی مثال کہاں تک ملتی ہے ظاہر کرتاہے کہ سرکاروپیہ جمع کرنے والے کو انٹر سٹ دے کر اپنا نقصان نہیں کرتی ہے بلکہ اس رقم سے نفع اٹھا کر کچھ دیتی بھی ہے ، اب یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ گورنمنٹ کو ہمیشہ فائدہ ہی ہوتا ہے یا کبھی نقصان بھی اس پر صاحب علم اور وہ اشخاص جو اس معاملے سے واقف کا ر ہیں روشنی ڈالیں ، اگر گورنمنٹ کو نقصان بھی ہوتا ہے تو وہ اس کی تلافی کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار کرتی ہو گی ، یا روپیہ جمع کرنے والوں پر اس کا بار آتا ہو گا ہا رعایا پر اس کا بوجھ ڈال کر اپنا نقصان پورا کرتی ہوگی ، واللہ اعلم. ، اور یہ جبر و تشدد ہمارے روپوں کی بدولت ہو غرض یہ کہ ایسے بینکوں میں شرکت کسی طرح درست نہیں ،  (۲)  ایک بینک وہ بھی ہیں جو مہا جنی اصول پر چلتے ہیں امانت دار،  (نہیں بلکہ سود خورا )  اس میں روپیہ جمع کرتے ہیں،  (بغرض حاصل کرنے سود) اور تجارت پیشہ والے اس سے سودی قرض حاصل کرتے ہیں گویا اس کے قائم کرنے کا خاص منشاء یہی ہو تا ہے کہ سود لیں اور دیں اور اس کی حرمت ظاہر ہے اب اس کے دیکھنے کی ضرورت نہیں کہ اس کا استعمال کہاں ہوتا ہے اچھے کاموں میں یا برے میں کیونکہ اس کی بنا ء ہی سود پر ہے جس طرح کہ شراب کہ اس کی حرمت میں کچھ شک و شبہ نہیں اس کا سرکہ بنانا ،  دوامیں استعمال کرنا وغیرہ سب ممنوع ، دوسرے بات یہ کہ امانت،  (یعنی روپیہ )  جوبینک میں جمع رہتا ہے اس کا ذمہ دار بینک خود ہے اور خسارہ صرف حصہ داروں کو ہونا چاہیئے لیکن چونکہ روپیہ جمع کرنے والے کو بینک سے سود ملتا ہے لہذا دیوالہ نکل جانے پر اس کا خسارہ امانت داروں پر بھی پرتا ہے یہ ایک طرفہ ڈنڈہے اور آخرت کا عذاب خداکی پناہ سخت ہے امانت کی اگر سچ پوچھئے تو یہ صورت ہی نہیں ، امانت اصل میں اسے کہتے ہیں کہ جو چیز جس حالت میں اور جس قدر بطور امانت رکھی جاوے وہ اسی حالت میں اور اسی حالت میں اور اسی قد ر واپس بھی لیا جاوے ، اب اظہر من الشمس ہو گیا ، کہ کسی حالت سے اس میں بھی شرکت جائز نہیں،  (۳) بعض بینکوں میں یہ بھی دستور ہے کہ امانت وار جو ان سے سود نہ لے ، تو وہ اس سودی رقم کو عیسائی مشن کے سپرد کر دیتے ہیں اس میں شک نہیں کہ آج کل کے جتنے قسم کے بینک اور دیگر مختلف طریقے مروج ہیں سب میں شرکت کرنا قطعی نا جائز ہے لیکن جو لوگ اس میں گرفتار ہیں ان کے لئے مناسب تو یہ ہے کہ باز آئیں ارشاد باری تعالی ہے، یَـٰٓأَیُّہَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّہَ وَذَرُ‌وا۟ مَا بَقِیَ مِنَ ٱلرِّ‌بَو‌ٰٓا۟ إِن کُنتُم مُّؤْمِنِینَ ﴿٢٧٨﴾ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا۟ فَأْذَنُوا۟ بِحَرْ‌بٍ مِّنَ ٱللَّہِ وَرَ‌سُولِہِۦ ۖ وَإِن تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُ‌ءُوسُ أَمْوَ‌ٰلِکُمْ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ.   (اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو کر سودی کاروبار چھوڑ دو ، ورنہ پھر اللہ سے جنگ کے لئے تیا ر ہو جاؤ) ، اس آیت کے آخری حصہ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ پر نظر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ موجود صورت پر چسپاں نہیں ہوتی کیونکہ خود سود دینے پر مجبور کرتے ہیں اور نہ لینے پر عیسائی کی مشن کے سپرد کر دیتے ہیں جو مذہب اسلام کے لئے مہلک ہے اس کے متعلق اخبار اہلحدیث میں فتوی بھی نکل چکاہے ، اللہ اعلم بالصواب.،  (خلیل احمد ناظم انجمن اہلحدیث مرزاپور ) ،  (۲۶صفر۴۳ء؁)   فتاویٰ ثنائیہ جلد 2 ص 466 محدث فتویٰ
Flag Counter