Maktaba Wahhabi

1856 - 2029
یہ بھی سودی حیلہ ہے السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ میرے پاس چاول کی کچھ بوریاں سٹور میں پڑی ہیں، کچھ لوگ میرے پاس آ کر بازار کی قیمت کے حساب سے خرید لیتے اور دوسرے لوگوں کو ادھار دے دیتے ہیں اور جب یہ چاول مقروض کے حصے کے ہو جاتے ہیں تو میں اس سے ایک ریال کم قیمت پر خرید لیتا ہوں، پھر کچھ اور لوگ آتے ہیں اور وہ مجھ سے خرید لیتے ہیں، ہاں البتہ یہ لوگ اسے خرید کر اپنی جگہ منتقل کر لیتے ہیں کیا اس طرح کی خریدوفروخت میں کوئی گناہ تو نہیں؟ رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم اللہ خیرا  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! یہ طریقہ سود کا ایک حیلہ ہے اور سود بھی مغلظ ہے جس میں فضل اور نسیئہ کی دونوں قسمیں غلط ہیں کیونکہ قرض دہندہ اس طریقے سے زیادہ مثلا دس کے بدلے بارہ ریال حاصل کرنا چاہتا ہے اور قرض دینے اور لینے والا کبھی کبھی صاحب دوکان کے پاس آنے سے پہلے بھی اس بات پر متفق ہو جاتے ہیں کہ وہ اس کے بجائے بارہ یا اس سے کم یز زیادہ لے گا اور یہ اتفاق کرنے کے بعد دوکان دار کے پاس آتے ہیں تاکہ اس کے لیے اس حیلہ کو عملی جامہ پہنا دیں۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اسے "حیلہ ثلاثیہ" سے موسوم کیا ہے اور یہ بلاشبہ ربا الفضل اور ربا النسیئہ کے لیے ایک حیلہ ہے جو کہ حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ کیونکہ حیلہ سازی سے کوئی حرام چیز مباح نہیں ہو جاتی بلکہ حیلہ سازی سے اس کی خباثت اور گناہ میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ ایوب سختیانی رحمۃ اللہ علیہ کے پاس جب اس طرح حیلہ سازوں کا ذکو ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ "یہ لوگ اللہ تعالیٰ کو اس طرح دھوکا دینا چاہتے ہیں جس طرح بچوں کو دھوکا دے رہے ہوں، اگر اس حیلہ سازی کے بجائے صاف صاف ارتکاب کرتے تو گناہ اس سے کم تر ہوتا۔" انہوں نے یہ بالکل سچ فرمایا ہے کہ حیلہ باز در حقیقت منافق کی طرح ہے جو اپنے آپ کو مومن ظاہر کرتا ہے، حالانکہ وہ کافر ہوتا ہے۔ اور اس طرح سود کے بارے میں حیلہ سے کام لینے والا یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ بیع کے لیے ایک صحیح اور حلال طریقہ استعمال کر رہا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب محدث فتوی فتوی کمیٹی
Flag Counter