Maktaba Wahhabi

1879 - 2029
موبائل کمپنیوں سے ایڈوانس بیلنس لینے کا حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا موبائل کمپنیوں سے جو ایڈوانس بیلنس لیا جاتا ہے وہ جائز ہے یا سود کے زمرے میں آتا ہے۔؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! میرا رجحان یہ ہے کہ یہ سود کے زمرے میں نہیں آتا ہے ،جس کے دو بنیادی سبب ہیں۔ 1۔پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اضافی رقم کمپنی کے سروس چارجز اور حکومتی ٹیکس ہوتا ہے جو وہ ایزی لوڈ اور کارڈ لوڈ پر بھی کاٹ لیتے ہیں۔آج کل اگر 100 روپے کا کارڈ لوڈ کریں تو 75 روپے آتے ہیں،اب کیا ہم یہاں بھی یہ کہیں گے کہ کمپنی نے 75 دے کر ہم سے 100 روپے لئے ہیں۔یہاں ایسا کوئی بھی نہیں کہتا ہے،ہر کوئی یہی سمجھتا ہے کہ یہ حکومتی ٹیکس اور سروس چارجز ہیں جو ہر کارڈ کے ساتھ ساتھ ہر کال پر بھی کٹتے رہتے ہیں اور یہ ایسے اصول ہیں جو سم لیتے وقت ہی کمپنی آپ کو بتا دیتی ہے کہ ہم ان ان شرائط پر آپ کو اپنی کمپنی کی سروس مہیا کریں گے،اور ہم کمپنی کی ان شرائط کو نہ صرف قبول کرتے ہیں بلکہ تحریری معاہدہ بھی کرتے ہیں کہ ہم کمپنی کی تمام شرائط سے متفق ہیں۔ 2۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے کمپنی سے نقد رقم نہیں لی ہوتی بلکہ ایک سروس اور خدمت لی ہوتی ہے ،جس کے چارجز ہم خدمت کے حصول کے بعد ادا کرتے ہیں۔(جبکہ کارڈ یا ایزی لوڈ میں پہلے ہی ادا کر دیتے ہیں۔)اب اس کو سود کیسے کہا جا سکتا ہے۔سود تو یہ ہے کہ نقدی رقم کے بدلے میں ہم زیادہ رقم ادا کر یں،یہاں تو ہم نے نقدی رقم لی ہی نہیں ہے۔اور پھر یہ بھی یاد رہے کہ یہ سروس چارجز ایزی لوڈ اور کارڈ پر کاٹے گئے چارجز سے کم ہیں۔فرق صرف تقدیم وتاخیر کا ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتوی کمیٹی محدث فتوی
Flag Counter