Maktaba Wahhabi

1887 - 2029
(258) سود کے پیسے فلاحی کاموں میں لگانا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ایک آدمی ہے۔اس نے تیس ہزار روپے بنک میں جمع کروائے ہیں۔اور اب ساٹھ ہزار ہوگئے ہیں۔ یعنی تیس ہزار سود کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں اب اگر وہ آدمی صرف 30 ہزار وصول کرکے کسی طہارت خانے یا کسی خراب رستے وغیرہ میں لگاسکتا ہے یا نہیں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! ابتداءً سودی کھاتہ میں بذات خود رقم جمع کرانا ایک جرم ہے۔ جس سے توبہ کرنا ضروری ہے۔موجودہ سوو کا مصرف یہ ہے کہ اگر کسی نے سودی پیسہ دینا یا حرام چٹی کا تاوان اس کے ذمہ ہے تو بتا کر اس کو یہ رقم دے دی جائے تاکہ حرام پیسہ حرام رستے میں صرف ہو۔غرض یہ کہ کسی مباح کام میں اس کو قطعاً خرچ نہیں کرنا چاہیے۔طہارت خانے میں ہی کیوں نہ ہو۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ ج1ص563 محدث فتویٰ
Flag Counter