Maktaba Wahhabi

1894 - 2029
غیر ارادی جمع شدہ سودی مال کا استعمال السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ہمارے ایک دینی بھائی ہیں جن کے والد صاحب نے کسی سے ایک لاکھ روپیہ سودی قرض لے رکھا تھا۔ اس سودی قرض کی شرح سود کافی زیادہ ہے جس کی بنا پر ہر ماہ قریب دس ہزار روپیہ انہیں سود ادا کرنا ہوتا ہے۔ ہمارے یہ بھائی سود کی حرمت کو جان چکے ہیں اور اس لعنت سے جان چڑھانا چاہتے ہیں مگر کافی کوششوں کے باوجود وہ ایسا نہیں کر پا رہے ہیں۔کسی نے انھیں مشورہ دیا کہ وہ بعض اُن حضرات سے رابطہ کریں جن کے پاس نہ چاہتے ہوئے بھی بینکوں میں ان کے اکاؤنٹس میں کچھ سود جمع ہو جاتا ہے،ان روپیوں کے بارے میں وہ حضرات بھی پریشان رہتے ہیں کہ اس رقم کا کیا کریں۔ لہٰذا ان سے وہ رقم لے کر یہ سودی قرض ادا کر دیں۔کیا یہ امر روپیہ لینے اور دینے والے دونوں کے لئے جائز ہوگا؟ واضح ہو کہ یہ مقروض بھائی کم و بیش ایک لاکھ روپئے محض سود کے طور پر اس قرض خواہ کو ادا کر چکے ہیں او ر اس قرض کی وجہ سے معاشی اور عائلی تنگیوں سے بہت زیادہ پریشان ہیں۔ ؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! سود کی رقم کے حوالے سے ہمارے بعض اساتذہ کرام کا یہ موقف پایا جاتا ہے کہ اس کو کسی ایسی ہی جگہ مثلاًمسجد کی لیٹرینیں وغیرہ پر خرچ کر دیا جائے جہاں سے اجر کی امید نہ رکھی جائے۔اس اعتبار سے اگر کسی کے پاس سودی رقم موجود ہے تو وہ اس بھائی کو دیکر اس کی خلاصی کرا دیں۔ تاکہ یہ بھائی مستقل طور پر سودی شکنجے سے نکل سکیں۔اور پرسکون زندگی گزار سکیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتوی کمیٹی محدث فتوی
Flag Counter