Maktaba Wahhabi

1949 - 2029
بینک ملازم کا کھانا پینا جو بظاہر صوم و صلاۃ کا پابند ہو السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ سعودیہ سے محمدعاصم لکھتے ہیں۔کہ ایک بینک کا ملازم بظاہر صوم وصلواۃ کاپابند ہے۔ ایسے بینک ملازم کے گھر کھانا پیناشرعاً کیسا ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! واضح ہوکہ سود نہ صرف ناپسندیدہ عمل اور حرام کام ہے۔بلکہ اسلامی حکومت کے دائرہ میں سودی کاروبار ایک فوجداری جرم ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایسا کاروبار نہ چھوڑنے والوں کے خلاف اعلان جنگ کیاہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔''اگرتم اس(سودی کاروبار)سے باز نہ آئےتو آگاہ رہو کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارےخلاف اعلان جنگ ہے۔''(2/البقرہ:279) رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کاارشاد  گرامی ہے۔۔'' کہ سود کھانے کھلانے لکھنے اور اس کی گواہی دینے والا ملعون ہے۔''(صحیح مسلم) لہذاسودی کاروبارحرام اور اس کی ملازمت بھی ناجائز ہے۔پھر عبادت کی قبولیت کے لئے اکل حلال ایک بنیادی شرط ہے حرام کھانے سے کوئی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ لہذاجب بینک کی ملازمت ناجائز اورحرام ہے۔تو اس کی کمائی بھی حرام ہے۔ایک بندہ مومن کواختیاری حالات میں اس  کا استعمال درست نہیں بالخصوص ایک داعی اسلام کو تو اس سے پرہیز کرنا چاہیے البتہ دعوتی نقطہ نظر سے ایسے انسان کی دعوت قبول کرنے میں گنجائش ہے بشرط یہ کہ بینک ملازم کو اسکے انجام بدسے خبردار کرنے کی نیت  ہو جیسا کہ رسول  اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہودیوں کی دعوتوں کو بعض اوقات قبول کیا ہے لیکن دعوتی نقطہ سے ہٹ کر  ازخودسودخوار کے گھرکھاناجائزنہیں ہے۔اگرایسے حالات پیداہوجائیں کہ اس کے بغیر کوئی چارہ کار نہ ہو یا سودخوارکسی اور زرائع سے دعوت کا اہتمام کرتا ہے توامید ہے کہ اللہ کے ہاں اس قسم کی دعوت قبول کرلینے میں مواخذہ نہیں ہوگا۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج1ص261 محدث فتویٰ
Flag Counter