Maktaba Wahhabi

2012 - 2029
بنک میں ملازمت کرنا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ میں ایک دینی ادارہ میں زیر تعلیم ہوں اور میرے والد بینک ملازم ہیں ، جبکہ ہمیں علم ہے کہ بنک کی ملازمت شرعاًجائز نہیں ہے اور والد کی کمائی بھی درست نہیں ہے، اسی سے وہ مجھے خرچہ دیتے ہیں اور گھر کے اخراجات چلاتے ہیں، اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ ہماری دعاؤں اور عبادات پر والد کی کمائی اثر انداز ہوگی یا نہیں ؟اس سلسلہ میں والدہ صاحبہ خاصی پریشان ہیں، والد صاحب سے کئی مرتبہ گفتگو ہوئی ہے ، لیکن وہ بینک کی ملازمت چھوڑنے پر آمادہ ہوتے نظر نہیں آتے اس سلسلہ میں ہماری رہنمائی کریں۔  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ رزق استعمال کرے اور اپنے بچوں کو حلال رزق کھلائے، حرام مال سے اخراجات پورے کرنا کئی ایک حوادث کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے ، ایسے شخص کی عبادات ہی قبول نہیں کی جاتیں جو حرام مال استعمال کرنے کا عادی ہو، صورت مسئولہ میں ایک اگر بینک ملازم کی اولاد کا کوئی ذریعہ معاش نہیں ہے، جس سے وہ اپنا پیٹ پال سکیں یا گھر کے اخراجات چلاسکیں تو ایسے حالات میں بینک کی تنخواہ سے کھانا، پینا اور اس سے کپڑے پہننا کوئی گناہ نہیں ہوگا،کیونکہ وہ مجبورہیں اور مجبوری کے وقت حرام مال کھانے کی اجازت ہے ، لیکن انہیں مندرجہ ذیل اشیاء کا خیال رکھنا ضروری ہے : (۱)اہل خانہ کو چاہیے کہ وہ اپنے والد یا خاوند کو نصیحت کرتے رہیں اور اسے اس ملازمت کے ناجائز ہونے کا یقین دلائیں تا کہ وہ اس سے اجتناب کرے، ممکن ہے کہ ان کی وعظ و نصیحت سے حرام مال کو ترک کردے اور اس سے توبہ کرے۔ (۲)اس کمائی کو زیادہ مقدار میں خرچ نہ کریں،صرف اسی قدر لیں جس سے گزارا چل جائے ، نیز اس کمائی سے صدقہ و خیرات بھی نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ خود پاک ہے اور پاکیزہ چیز کو ہی قبول کرتا ہے۔ (۳)اولاد کو چاہیے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں،جب حالات سازگار ہوجائیں کہ والد کے سرمایہ کی ضرورت نہ رہے تو اس حرام کمائی سے اجتناب کریں، اس لئے انہیں بہت محنت سے کام لینا ہوگا۔ (۴)اگر حرام سے بچنے کی کوئی صورت نہ ہوتو امید ہے کہ اہل خانہ کی عبادات اور دعاؤں پر یہ حرام مال اثر انداز نہیں ہوگا،کیونکہ ان کے پاس طاقت ہی نہیں ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے:‘‘اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔’’ (۲/البقرہ:۲۸۵) شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ سے سود کا کاروبار کرنے والے کے متعلق سوال کیا گیا کہ وہ فوت ہوگیا ہے اور اس نے اپنے پیچھے اولاد اور مال چھوڑا ہے اور اولاد کو اپنے والد کے سودی کا م کابھی علم ہے تو کیا ان کے لئےیہ مال بطور وراثت حلال ہے؟شیخ الاسلام نے جواب دیا:‘‘اولاد کو سود کی جس مقدار کا علم ہے ، وہ اس سے نکال دے اور اگر ممکن ہوتو وہ لوگوں کو واپس کرے،ا سے صدقہ نہ کرے اور جو باقی ہے اسے وراثت کے طور پر استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ، لیکن جس مقدار میں شبہ ہو اس کے متعلق بہتر ہے کہ اسے چھوڑا دیا جائےا ور اگر مال میں حرام اور حلال دونوں کی ملاوٹ ہواور اس کی مقدار کا علم نہیں تو اس کے دو حصے کرلینےچاہییں ، یعنی نصف حلال اور نصف حرام کا،حلال حصہ کو استعمال کر لیا جائے۔ (مجموعہ الفتاویٰ،ص:۳۰۷،ج ۲۹) بہرحال والد کو وعظ و نصیحت کرتے رہنا چاہیے۔ اس سلسلہ میں اہل علم کا تعاون بھی لیا جاسکتا ہے، اس کے دوست و احباب سے بھی یہ کام لیا جاسکتا ہے،تا کہ اسے مطمئن کرکے حرام کمائی سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ (واللہ اعلم ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص474 محدث فتویٰ
Flag Counter