Maktaba Wahhabi

325 - 2029
بیوی کی دبر میں وطئ کرنے کاحکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ بیوی کی دبر ( پاخانہ والی جگہ ) میں وطئ کرنے کا کیا حکم ہے،کیا اس پر کوئی کفارہ بھی ہے؟ الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! بیوی سے دبر میں وطئ و جماع حرام ہے،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کرنے والے کو ملعون قرار دیاہے. شریعت اسلامیہ نے اس حرام فعل کا کوئی کفارہ مقرر نہیں کیا، اس لیے اس کا کفارہ تو صرف توبہ و ندامت اور اللہ کی طرف رجوع و انابت ہے. شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے درج ذیل سوال دریافت کیا گیا: بیوی سے دبر میں وطئ کرنے کا حکم کیا ہے، اور کیا ایسا کرنے والے پر کوئی کفارہ بھی ہے ؟ شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا: " عورت کی دبر میں وطئ کرنا کبیرہ گناہ شمار ہوتا ہے اور قبیح ترین معاصی میں سے ہے، کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: « مَلْعُونٌ مَنْ أَتَی امْرَأَتَہُ فِی دُبُرِہَا » رواہ أبو داود (2162) وحسنہ الألبانی فی صحیح أبی داود . " جو شخص اپنی بیوی کی دبر میں وطئ کرے وہ ملعون ہے " سنن ابو داود حدیث نمبر ( 2162 ) علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں اسے حسن قرار دیا ہے. اور ایک حدیث میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «لا یَنْظُرُ اللَّہُ إِلَی رَجُلٍ أَتَی رَجُلا أَوْ امْرَأَةً فِی الدُّبُرِ » رواہ الترمذی (1166) وحسنہ الألبانی فی صحیح الترمذی " اللہ سبحانہ و تعالی ایسے شخص کی جانب نہیں دیکھے گا جو کسی مرد سے بدفعلی کرے یا اپنی بیوی کی دبر میں وطئ کرے" سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1166 ) علامہ البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں اسے حسن قرار دیا ہے. ایسا قبیح فعل کرنے والے کو چاہیے کہ جتنی جلدی ہو سکے وہ اس شنیع فعل سے توبہ کر لے، اور توبہ یہ ہے کہ وہ فوری طور پر اس گناہ کو چھوڑ دے، اور اس گناہ کو اللہ کی تعظیم کرتے اور اس کی سزا سے ڈرتے ہوئے چھوڑے، اور جو کچھ ہوا اس پر نادم ہو، اور سچا و پختہ عزم کرے کہ آئندہ ایسا نہیں کریگا، اور اس کے ساتھ ساتھ اعمال صالحہ کی جدوجہد کرے، جو شخص بھی توبہ کرتا ہے اللہ سبحانہ و تعالی اس کی توبہ قبول کر کے اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے: ﴿وَإِنّی لَغَفّارٌ‌ لِمَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا ثُمَّ اہتَدیٰ ٨٢﴾.... سورة طہ ’’ یقینا میں ایسے شخص کو معاف کر دیتا ہوں جو توبہ کرتا اور ایمان لا کر اعمال صالح کرتا اور پھر راہ ہدایت اختیار کرتا ہے ‘‘ اور ایک مقام پر ارشاد باری تعالی ہے: ﴿وَالَّذینَ لا یَدعونَ مَعَ اللَّہِ إِلـٰہًا ءاخَرَ‌ وَلا یَقتُلونَ النَّفسَ الَّتی حَرَّ‌مَ اللَّہُ إِلّا بِالحَقِّ وَلا یَزنونَ ۚ وَمَن یَفعَل ذ‌ٰلِکَ یَلقَ أَثامًا ٦٨ یُضـٰعَف لَہُ العَذابُ یَومَ القِیـٰمَةِ وَیَخلُد فیہِ مُہانًا ٦٩ إِلّا مَن تابَ وَءامَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صـٰلِحًا فَأُولـٰئِکَ یُبَدِّلُ اللَّہُ سَیِّـٔاتِہِم حَسَنـٰتٍ ۗ وَکانَ اللَّہُ غَفورً‌ا رَ‌حیمًا ٧٠﴾.... سورة الفرقان ’’اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے کو الہ و معبود نہیں بناتے، اور نہ ہی اس جان کو ناحق قتل کرتے ہیں جسے اللہ نے قتل کرنا حرام کیا ہے، اور نہ ہی زنا کا ارتکاب کرتے ہیں، اور جو کوئی بھی ایسا کریگا وہ گناہگار ہے ‘‘ ’’اسے روز قیامت دوہرا عذاب دیا جائیگا اور وہ اس عذاب میں ہمیشہ رہے گا ‘‘ ’’مگر وہ جو توبہ کر لے اور ایمان لائے اور نیک و صالح اعمال کرے تو یہی ہیں وہ لوگ جن کی برائیوں کو اللہ تعالی نیکیوں میں تبدیل کر دیگا، اور اللہ تعالی بخشنے والا رحم کرنے والا ہے ‘‘الفرقان ( 68 - 70 ). علماء کرام کے صحیح قول کے مطابق دبر میں وطئ کرنے والے پر کوئی کفارہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسا کرنے سے اس پر بیوی حرام ہوتی ہے، بلکہ بیوی اس کی عصمت و نکاح میں ہی رہےگی، اور بیوی کے لیے جائز نہیں کہ وہ ایسے شنیع و قبیح فعل میں خاوند کی اطاعت کرے، بلکہ بیوی کو چاہیے کہ اگر خاوند ایسا قبیح فعل کرنا چاہے تو اسے ایسا نہ کرنے دے، اور اگر خاوند اس فعل سے توبہ نہیں کرتا تو بیوی فسخ نکاح کا مطالبہ کر سکتی ہے. اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ اس سے عافیت نصیب فرمائے " انتہی مختصرا (فتاوی اسلامیۃ ( 3 / 256 ). امام بھوتی رحمہ اللہ کا کہنا ہے: " اور اگر وہ یہ فعل ( بیوی سے دبر میں وطئ ) کرتا ہے تو اسے تعزیر ( یعنی حاکم اسے ایسی سزا دے جو اسے اور اس جیسے افراد کو اس فعل سے روک دے ) لگائی جائیگی، کیونکہ اس نے ایسی معصیت کا ارتکاب کیا ہے جس کی کوئی حد اور کفارہ نہیں " انتہی کشاف القناع ( 5 / 190) یہاں انہوں نے صراحت کی ہے کہ یہ ایسی معصیت ہے جس میں کوئی کفارہ نہیں. دوم: اکثر لوگ اس وقت غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں جب وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ کسی معین گناہ پر کفارہ واجب نہیں تو اس کا معنی ہے کہ یہ گناہ چھوٹا اور ہلکا سا ہے، لوگوں کا یہ خیال درست نہیں ہے، بلکہ اگر کہا جائے کہ: دبر میں وطئی کرنے کا اللہ نے کفارہ مقرر نہیں کیا کیونکہ یہ تو اس گناہ سے بھی بڑا ہے جو کفارہ ادا کرنے سے ختم ہو جاتا ہے، تو یہ بعید نہیں ہے، جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے جھوٹی قسم کے بارہ میں فرمایا ہے: " الغموس: جان بوجھ کر جھوٹی قسم اٹھانے کو غموس کہا جاتا ہے.... اور یہ اس سے بھی بڑھ کر ہے کہ اسے کفارہ ختم کرے " انتھی دیکھیں: التاج و الاکلیل ( 4 / 406 ) اور المدونۃ ( 1 / 577 ) میں بھی یہی درج ہے. ہذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتوی کمیٹی محدث فتوی
Flag Counter