Maktaba Wahhabi

534 - 2029
مردہ جانور کھانے کا حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ جب مردہ جانور کھانا حرام ہے تو مردہ مچھلی کیوں کھا تے ہیں۔؟ کیا ہم جھینگا اور کیکڑا کھا سکتے ہے۔؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! ہم پر اللہ سبحانہ و تعالی کی نعمت ہے کہ اس نے ہمارے دین کو بہت آسان اور سہل بنایا ہے، اور ہم پر کوئی سختی اور شدت نہیں، اور ہم پر ہماری استطاعت و طاقت سے باہر کوئی کام لازم نہیں کیا، ہمارے لیے بہت ساری اشیاء حلال کر دی ہیں جو پہلی شریعتوں میں حرام کی گئی تھیں۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے: ’’اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی کرنا چاہتا ہے، اور تم پر تنگی نہیں چاہتا ۔‘‘ اور اس میں سمندری کھانے والی اشیاء بھی شامل ہیں، چاہے وہ حیوان ہو یا نباتات، زندہ ہو یا مردہ۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے: ’’تمہارے لیے سمندر کا شکار کرنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے، تمہارے فائدہ کے لیے، اور مسافروں کے واسطے۔‘‘المآئدۃ ( 96)۔ ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں: اس کا شکار وہ ہے جو اس سے زندہ پکڑا جائے، اور اس کا کھانا وہ ہے جو سمندر مرا ہوا باہر پھینک دے۔ اور بہت ہی قلیل سمندری جانور ایسے ہیں جنہیں بعض اہل علم نے مندرجہ بالا اباحت سے مستثنی کیا ہے، اور وہ درج ذیل ہیں: 1 - مگرمچھ: صحیح یہی ہے کہ اس کا کھانا جائز نہیں، کیونکہ اس کی کچلی ہے، اور پھر یہ خشکی پر بھی رہتا ہے ـ اگرچہ یہ زیادہ وقت پانی میں بھی بسر کرے ـ تو ممنوعہ جانب غالب سمجھی جائیگی۔ ( اور وہ یہ ہے کہ یہ خشکی والا اور کچلی والا جانور ہے )۔ 2 - مینڈک: اسے کھانا جائز نہیں، کیوکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، جیسا کہ درج ذیل حدیث میں وارد ہے: عبد الرحمن بن عثمان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ: " رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک قتل کرنے سے منع فرمایا " اسے امام احمد اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے، اور صحیح الجامع حدیث نمبر ( 6970 ) میں بھی ہے۔ اور قاعدہ اور اصول یہ ہے کہ جسے قتل کرنا منع کیا گیا ہو اسے کھانا جائز نہیں، کیونکہ اگر اس کا کھانا جائز ہوتا تو اسے قتل کرنا جائز ہوتا۔ 3 - بعض اہل علم نے سمندری سانپ کو بھی مستثنی کیا ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ اگر وہ صرف سمندر میں ہی رہتا ہو تو درج ذیل فرمان باری تعالی کے عموم کی بنا پر کھانا جائز ہو گا: فرمان باری تعالی ہے: ’’تمہارے لیے سمند کا شکار کرنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے، تمہارے فائدہ کے لیے۔‘‘المآئدۃ ( 96 )۔ 4 - پانی میں رہنے والا سمندری کتا اور کچھوا: لیکن صحیح یہ ہے کہ اسے ذبح کرنے کے بعد کھانا جائز ہے، کیونکہ یہ خشکی اور سمندر دونوں جگہ رہتا ہے، اس لیے ممنوعہ جانب کو غالب کیا گیا ہے، اور یہاں ایک قاعدہ اور اصول ہے وہ یہ کہ: " جو چیز بھی سمندر اور خشکی دونوں جگہ رہتی ہے اسے ـ احتیاطا ـ خشکی میں رہنے والے جانور کا حکم دیا جائےگا، اس لیے اسے ذبح کرنا ضروری ہے " لیکن اس سے سرطان (جسے ہم اردو میں کیکڑا اور انگلش میں کریب کہتے ہیں، علوی)خارج ہے، اسے ذبح کرنا لازم نہیں چاہے وہ سمندر اور خشکی دونوں جگہ رہتا ہے، کیونکہ اس میں خون نہیں۔ 5 - ہر وہ چیز جس میں ضرر اور نقصان ہو اس کا کھانا جائز نہیں، چاہے وہ سمندری ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ سبحانہ و تعالی کا فرمان ہے: ’’اور تم اپنے نفسوں کو قتل مت کرو، یقینا اللہ تعالی تمہارے ساتھ رحم کرنے والا ہے۔‘‘ اور ایک مقام پر ارشاد باری تعالی اس طرح ہے: ’’اور تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔‘‘ دیکھیں: المغنی ( 11 / 83 ) اور حاشیة الروض ( 7 / 430 ) اور تفسیر ابن کثیر ( 3 / 197 ) اور احکام الاطعمةتالیف الشیخ فوزان۔  ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب محدث فتوی فتوی کمیٹی
Flag Counter