Maktaba Wahhabi

608 - 2029
حرام کو حلال کرنے کا اختیار علماء کو ہے؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ  کارڈف سےغلام حسین دریافت کرتےہیں اس ملک  میں مارگیج وغیرہ کا جو سسٹم ہے یعنی اس میں سود وغیرہ کا اس کی حرمت میں ہمیں توشبہ نہیں  مگر کچھ لوگ بلکہ علماء یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی کے پاس گھر نہ ہو اور رقم بھی نہ ہوتو وہ سود پر قرض لے سکتاہے۔ کچھ حاجی اور مولوی صاحب جن کو ہم جانتے ہیں بڑی خوشی سے یہ کام کررہے ہیں کیا واقعی ایسی کوئی گنجائش ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! جہاں تک دوسرے سوال کا تعلق ہے کہ مکانات یا دکانیں خریدنے کےلئے سود پر قرض لینا تو ‘‘صراط مستقیم ’’ میں ہم متعدد بار اس موضوع پر لکھ چکےہیں کہ سود کی کوئی شکل بھی جائز نہیں۔ جو علماء اسے جائز قرار دیتےہیں انہیں چاہئے کہ وہ لکھ کر اپنے دلائل سےہمیں آگاہ کریں۔ ہم ان کے دلائل صراط مستقیم میں شائع بھی کریں گے اور ان پر روشنی بھی ڈالیں گے۔اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ کسی چیز کو حلال کرنا اتنا آسان نہیں جتنا ان لوگوں نے سمجھ لیا ہے۔ کسی مولوی صاحب یا حاجی صاحب کو کوئی عمل ہمارے لئے حجت نہیں بن سکتا ۔ ہمارے لئے دلیل اور حجت صرف قرآن و حدیث ہیں۔ ہاں اگر کوئی آدمی مرنے لگا ہے اور اگر وہ سود پر قرض نہ لےتو زندہ نہیں رہ سکتا تو اس کے  لئے اس قدر اجازت ہوسکتی ہے جس سے اس کی زندگی بچ جائے۔ یا اس طرح کی مجبوری کی کوئی اور شکل ہو۔ جولوگ اس ملک میں سود دینے کو جائز اور لینے کو ناجائزکہتےہیں۔ اگر ان سے دلائل لکھوا کر آپ ہمیں بھیج دیں تو ہم ان پر روشنی ڈال سکتےہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ صراط مستقیم ص553
Flag Counter