Maktaba Wahhabi

616 - 2029
(162) کھانا کھاتے وقت بسم اللہ یا بسم اللہ الرحمن الرحیم؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا کھانا وغیرہ کھاتے وقت بسم اللہ الرحمن الرحیم مکمل پڑھی جائے یا صرف بسم اللہ کہا جائے؟ صحیح احادیث کی رو سے وضاحت فرمائیں۔  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث صحیحہ کی رو سے کھانا کھاتے وقت یا وضو وغیرہ کرتے وقت صرف بسم اللہ ہی پڑھنا ثابت ہے۔ مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا آپ کے قول و عمل سے ثابت نہیں۔ ہماری معلومات کے مطابق صرف دو مقامات پر بسم اللہ الرحمن الرحیم مکمل پڑھنا ثابت ہے۔ دلائل ملاحظہ فرمائیں: ((عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِی سَلَمَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: «ادْنُ بُنَیَّ فَسَمِّ اللَّہَ وَکُلْ بِیَمِینِکَ، وَکُلْ مِمَّا یَلِیکَ.)) ''عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ان سے فرمایا، اے لڑکے اللہ کا نام لو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے سامنے سے کھاؤ۔''(بخاری۴۹۲/۳، مسلم۱۰۹، مسند احمد (۱۵۸۹۶)۶۰۶ طبع قدیم ص۲۶/۴)             اس حدیث سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے عمر بن ابی سلمہ کو جو فرمایا (بسم اللہ ) ''اللہ کا نام لو۔'' اس اجمال کی تفصیل طبرانی کبیر ١٤٩ اور کتاب الدعا للطبرانی (۸۸۶) کی روایت سے معلوم ہو جاتی ہے۔ طبرانی میں ہے( (یا غلام إذا أکلت  فقل بسم اللہ.)) ''اے لڑکے جب تو کھانے لگے تو ''بسم اللہ '' کہہ۔ بقول علامہ البانی حفظہ اللہ ارواء الغلیل ٣١٧ اسنادہ صحیح علی شرط الشیخیں'' اس حدیث کی سند شیخین کی شرط پر صحیح ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: " ففیہ ما أطلق فی الروایات  الأخری  بأن  التسمیة علی الطعام إنما السنة فیہا أن یقول  بإختصار " بسم اللہ " و مما یشہد  لذلک  الحدیث المتقدم  (1965) فأحفظ ہنا فإنہ  مہم  عند من یقدرون  السنة  ولا یجیرون الزیادة  علیہا"             ''جو بات مطلق بیان ہوئی تھی ، دیگر روایات میں اس کی وضاحت موجود ہے (اور اس میں یہ بھی ہے کہ )کھاتے وقت ''بسم اللہ '' مختصر پڑھنا ہی مسنون ہے۔ اس کی تائید حدیث نمبر ۱۹۶۵سے بھی ہوتی ہے اس بات کو اچھی طرح یاد کر لو کیونکہ یہ ان افراد کے نزدیک بڑی اہمیت ک حامل ہے جو سنت کی تعظیم کرتے ہین اور اس پر کسی قسم کا اضافہ و زیادتی نہیں سمجھتے۔''             وہ حدیث جس کی طرف علامہ البانی حفظہ نے اشارہ کیا ہے درج ذیل ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مرفوعاً مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (( إذا أکل أحدکم فلیذکر اسم اللہ نسی أن یذکر اسم اللہ فی أولہ  فلیقل بسم اللہ  أولہ و أخرہ.))             ''جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھانے لگے تو اسے اللہ کا ذکر کرنا چاہیے اگر کھانے کی ابتداء میں اللہ کا ذکر کرنا بھول جائے تو ''بسم اللّٰہ اوّلہ واٰخرہ''بھی وارد ہے۔ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ کھانے کے وقت صرف بسم اللہ پڑھا جائے کیونکہ اس کے ساتھ الرحمن الرحیم کا اضافہ مسنون ہوتا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  اس مقام اس مقام پر ضرور سکھاتے کیونکہ یہ مقام تعلیم تھا اور اصولیین  نے یہ قاعدہ ذکر کیا ہے۔ " تأخیر  البیان عند وقت الحاجة  لا یجوز "             ''ضرورت کے وقت بیان (تفصیل ) سے تاخیر جائز نہیں۔''             سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا (تو ضّووابسم اللہ) ''بسم اللہ کہتے ہوئے وضو کرو۔''  (ابنِ خزیمہ۴۷/۱ نسائی) لہٰذا کھانا کھاتے وقت اور وجوء کرتے وقت ہمیں صرف بسم اللہ پڑھنا چاہئے۔ یہی مسنون ہے۔ اس میں اضافہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے مروی ہے: (( عن سمرة  عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال إذا حدثتکم  حدیثا فلا تزیدن علیہ الحدیث.))             ''آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جب میں تم سے کوئی حدیث بیان کروں تو اس پر ہر گز اضافہ نہ کرنا۔'' (مسند احمد (۱۹۲۱۸)۲۳۸/۵، قدیم ص۱۱/۵)             وہ دو مقامات جہاں بسم اللہ الرحمٰن الرحیم مکمل پڑھنی چاہیے یہ ہیں:             ۱)   قر آن مجید کی تلاوت کے وقت، جب تلاوت کی ابتداء کسی سورت سے کی جائے تو تعوذ کے بعد بسم اللہ الرحمن الرحیم مکمل پڑھی جائے۔             ۲)   اسی طرح جب خطوط و رسائل لکھے جائیں تو مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھنی چاہیے جیسا کہ قرآن مجید میں سورہ نمل آیت ٣٠ میں سلیمان علیہ السلام کا ملکہ بلقیس کے نام خط میں مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم درج ہے۔ اسی طرح آپ   صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہر قل کے نام جو خط لکھا اس میں بھی مکمل بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا۔ (ملاحظہ ہو صحیح بخاری کتاب الوحی اور کتاب الشروط باب الشروط فی الجھاد)             اس مسئلہ کی مکمل تفصیل ہمارے بھائی حافظ عبدالرؤف عبدالحنان نے اپنی کتاب ''مسنون تسمیہ '' میں بڑے احسن انداز سے ذکر کی ہے۔ مزید تفصیل کا طالب اس کتاب کا مطالعہ کرے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب آپ کے مسائل اور ان کا حل ج 1
Flag Counter