Maktaba Wahhabi

640 - 2029
عورتوں کے لیے کون سا کھیل جائز ہے؟ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ احادیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ اور حضرت عائشہ ؓ نے ایک مرتبہ باہمی دوڑ میں مقابلہ کیا تھا ، اس مقابلے کو عورتوں کے لئے کھیل کود کو جائز قرار دینے کی بنیاد قرار دیا جاسکتا ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! جس واقعہ کو سوال میں ذکر کیا گیا ہے اس کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ ایک مرتبہ رسول اللہﷺ کے ہمراہ شریک سفر تھیں ،جبکہ آپ کی عمر زیادہ نہ تھی نہ ہی آپ کا جسم فربہ ہواتھا۔ رسول اللہﷺ نے صحابہ کرام ؓ سےفرمایا :‘‘تم ذرا آگے چلے جاؤ۔’’جب وہ تعمیل کرتے ہوئے کچھ آگے چلے گئے تو آپ نے حضرت عائشہ ؓ سے فرمایا کہ ‘‘تم میرے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کرو۔’’حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں دوڑتے ہوئے آپ سے آگے بڑھ گئی ،پھر عرصہ دراز کے بعد ایک مرتبہ  پھر حضرت عائشہؓ آپ کے شریک سفرتھیں،آپ نے صحابہ ؓ سےفرمایا‘‘ کہ تم ذراآگے چلے جاؤ۔’’پھر آپ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ ‘‘تم میرے ساتھ دوڑ میں مقابلہ کرو۔’’ اس وقت آپ پہلے واقعہ  کو بھول چکی تھیں اور جسم بھی فربہ ہوچکا تھا، فرمانے لگیں کہ میں اس حالت میں کیسے دوڑ سکتی ہوں، آپ نے فرمایا کہ ‘‘ا یسا نہیں ہوسکتا  آپ کو دوڑ میں شریک ہوناہوگا۔’’ چنانچہ میں آپ سے دوڑ میں مقابلہ کیا تو آپ آگے بڑھ گئے اور میں پیچھے رہ گئی، آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ ‘‘میں نے پہلے مقابلے کابدلہ چکا دیا ہے۔’’ (مسند امام احمد،ص:۲۶۴،ج ۶) واقعہ بیوی خاوند کے درمیان  پیش آیا ، اسے اوپن مقابلوں میں عور ت کے شریک ہونے کے لئے کیونکر بنیاد بنایا جاسکتا ہے، اس سے مقصود اچھے انداز میں معاشرتی زندگی کی تکمیل اور میاں بیوی کے درمیان محبت و الفت کا حصول تھا۔ اس بنا پر اس واقعہ سے اس جیسے عمل کےلئے ہی استدلال لیا جاسکتا ہے ، تاہم دین میں اتنی تنگی نہیں ہے کہ اگر عورتوں نے تفریح طبع کے طور پر کھیلنا ہے تو اس کےلئے درج ذیل پابندیوں کو پیش نظر رکھنا ہوگا: ٭مقابلہ خواتین کے مابین ہوا ور انہیں دیکھنے والی بھی عورتیں ہی ہوں۔ ٭عورتوں کی جسمانی ساخت کے پیش نظر وہ ہلکی پھلکی کھیل میں حصہ لیں جس سے ان کی نسوانیت اور وقار مجروح نہ ہو۔ ٭مقابلہ اوپن نہیں ہونا چاہیے تا کہ وہ کسی قسم کا فتنہ فساد انگیزی کا باعث نہ ہو۔ لیکن آج کل عورتیں نیکریں پہن کر اپنے قابل ستر حصوں کو نمایا ں کرکے کھیلوں میں شریک ہوتی ہیں، پھر اس مقابلے کو ٹی وی پر نشر کیا جاتا ہے،مرد حضرات اسے دیکھتے ہیں بلکہ میدان مقابلہ میں موجود ہوتے ہیں، ان کھیلوں سے ان کی نسوانیت بھی مجروح ہوتی ہے، ایسے حالات میں عورتوں کا کھیلوں کے مقابلہ میں حصہ لینا حرام اور ناجائز ہے۔ اس قسم کی مقابلہ بازی سے انہیں باز رکھنا انتہائی ضروری ہے تا کہ شروفساد کا دروازہ نہ کھلے۔(واللہ اعلم ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص415
Flag Counter