Maktaba Wahhabi

799 - 2029
تیراکی وغیرہ کے وقت مختصر لباس پننے کا حکم السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ الحمدللہ وحدہ  وبعدہ: بحوث علمیہ وافتاء کمیٹی  نے اس سوال کو  ملاحظہ کیا جو محترم چیئرمین صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا کہ بہت سے لوگ  جن میں فوج کے لوگ بھی شامل  ہیں کھیلوں وغیرہ کے وقت بہت مختصر لباس استعمال کرتے ہیں' جس  سے ناف  کے نیچے کا حصہ نظر آتا ہے اورران کا بھی نصف حصہ یا  بعض اوقات اس سے بھی زیادہ مختصر حصہ نظر آتا ہے اس طرح کے لباس کا چونکہ آج کل  بہت رواج عام ہوگیا ہے'اس لیے آپ سے درخواست  ہے کہ اس مسئلہ سے  متعلق حکم شرعی  کے بارے میں اپنی رائے سے مطلع فرمائیں کیونکہ کچھ  عرصہ سے اس قسم  کے لباس کا رواج اس قدر عام ہوگیا ہے گویا یہ ایک مباح لباس ہے۔ جزاکم اللہ خیراً  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! تمام مسلمانوں کا اجماع  ہے کہ ستر عورہ واجب ہے  ۔ عورت کا تو سارا جسم ہی عورہ ہے' جبکہ مرد  کا آگے پیچھے کا مقام خاص تو بالاجماع عورہ ہے' بلکہ علماء کے صحیح قول  کے مطابق مرد کا ناف سے لیکر  گھٹنے تک کا حصہ پردہ ہے' کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ((لاتبرز فخذک ‘ ولا تنظر الی فخذ حی ولا میت )) (سنن ابی داود‘الجنائز‘ باب فی ستر المیت  عند  غسلہ ‘ ح: ٣١٤- وسنن ابن ماجہ‘ ح: ١٤٦-) "اپنی ران کو ننگا نہ کرو اور نہ کسی زندہ یا مردہ کی ران کو دیکھو۔"(اسے امام ابوداود اورابن ماجہ  نجے روایت کیا ہے۔) محمد بن  جحش سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺس کا معمر کے پاس سے گزر ہوا تو ان کے ننگے ران دیکھ کر آپ نے  فرمایا : ((یا معمر ! غط فخذیک فان الفخذین عورة)) (مسند احمد :٥/٢٩- والمستدرک علی الصحیحین للحاکم :٤/١٨-‘ ح: ٧٣٦١ البخاری قبل ح: ٣٧١ تعلیقاً) "اے معمر اپنے دونوں رانوں کو  ڈھانپ لو کیونکہ دونوں ران  بھی پردہ  ہیں۔"  (اسے امام احمد ؒ نے  "مسند " میں امام بخاری ؒ نے صحیح میں تعلیقاً اور امام حاکم : نے "مستدرک " میں روعایت کیا ہے) حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ((الفخذ عورة) جامع الترمذی ‘الادب ‘باب ماجاء ان الفخذ عورة ;ح: ٢٧٩٧ و مسنداحمد  :١/٢٧٥) "ران پردہ ہے۔" (اسے امام ترمذی  اور امام احمد  ؒ نے روایت کیا ہے) مسند احمد کی روایت کے الفاظ یہ  ہیں کہ نبی ﷺ کا ایک شخص کے پاس سے گذر ہوا' جس کے ران ننگے تھے تو آپ نے فرمایا: ! غط فخذیک فان الفخذین عورة)) (مسند احمد :٥/٢٩- والمستدرک علی الصحیحین للحاکم :٤/١٨-‘ ح: ٧٣٦١ ) اپنے دونوں رانوں کو ڈھانپ لو کیونکہ ران پردہ ہے۔"  جرید اسلمی  رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا میرے پاس سے گزر  ہوا تو میں نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی اور میری ران ننگی تھی تو آپ نے فرمایا : ! غط فخذیک فان الفخذین عورة)) (مسند احمد :٥/٢٩- والمستدرک علی الصحیحین للحاکم :٤/١٨-‘ ح: ٧٣٦١ ) اپنے دونوں رانوں کو ڈھانپ لو کیونکہ ران پردہ ہے۔"(اسے امام مالک نے "ؒموطا" میں امام احمد  امام ابو داود اور امام ترمذی ؒ  نے روایت کیا اور امام ترمذیؒ  نےروایت کیا اور امام ترمذی ؒ نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے) یہ احادیث  ایک دوسری  کے لیے  باعث تقویت  ہیں،جس کی وجہ سے ان سے یہ استدلال کیا جاسکتا ہے کہ مرد  کے لیے اپنی رانوں کو چھپانا بھی فرض ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اسلامیہ ج4ص267
Flag Counter