Maktaba Wahhabi

819 - 2029
نچلے ہو نٹ کے بال کترنا جا ئز نہیں السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا داڑھی کے بال کے اور مو نچھو ں کے کنا ورں کے با ل جائز ہیں ؟ کیا چہرے کے بال نو چنے اور صاف کرنے جا ئز ہیں ؟ ۔ اخو کم : عبد السلا م ۔  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! (عنفقہ  ) داڑھی بچہ کے بال لینے جا ئز نہیں ۔ عنفقہ نچلے ہو نٹ کے نیچے اکٹھے بالو ں کو کہتے ہیں ۔ داڑھی بچہ کے آ س پاس  کے بال لینے بھی جائز نہیں اور اسی طر ح چہر ے اور کا ن کی سید میں رخسا ر کے با ل لینے بھی جا ئز نہیں اور رخسار پر ابھر ی ہو ئی ہڈی اور باقی رخسا ر کے با لو ں اکھیڑنا جا ئزنہیں ہے ۔ یہ سب داڑھی کا حصہ ہیں جیسے کہ لغۃکے علماء نے تصریح کی ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کو معا ف کرنے کا حکم دیا ہے اور ان سب میں سے کسی کا اکھاڑنا یا کتر نا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے امر کی مخا لفت ہے ۔ اور نیل الا و طا ر کے حا شیہ ( 1؍ 143) میں ہے : فا ئدہ : اما م احمد بن حنبل  سے چہر ے کے بال صاف کرنے کے با رے میں پو چھا گیا : تو فر ما یا : عو رتو ں کے لئے کو ئی حرج نہیں ہے اور مردوں کے لئے مکروہ سمجھتا ہوں۔ او رالمجو ع ( 1؍ 29) میں ہے : امام غزالی کہتے ہیں : داڑھی میں کمی کرنا اور زیا دتی کرنا مکروہ ہے اسطرح کہ داڑھی کے سا تھ کنپٹی کے با ل ملا لئےجا ئیں ۔ یا جب سر مو نڈے تو سا تھ داڑھی کے بال بھی کچھ مو نڈلئے جائیں ۔ اور اسی طر ح داڑھی بچہ کے آ س پا س کے با ل نو چنا مکر وہ ہے ان میں کسی قسم تبدیلی نہ کر ے ۔ امام احمد  کہتے ہیں : داڑھی کے نیچیے حلق کے بال مو نڈنے اور مٹھی سے زائد کترنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ امام غزالی  احیا ءالعلو م ( 1ٓ؍ 245) میں اور امام نووی المجموع ( 1؍291 ) میں اور شرح مسلم ( 1ؔ؍ 129) میں اور اما م الشوکانی نیل الاو طا ر ( 1؍143) میں کہتے ہیں : داڑھی میں با رہ خصلتیں مکروہ ہیں ان میں بعض کراہت میں بعض سے زیا دہ سخت ہیں :  1۔ کا لا خضا ب لگا نا ۔ 2۔ گندھک وغیر ہ  سے جلد ی سفید ریش بننے کے لئے داڑھی سفید کرنا تاکےکبر سنی کا مظا ہر ہ کر کے ریا ست حا صل کرسکے ۔ 3۔ نئی نکلتی ہو ئی داڑھی کو اکھیڑنا اور استر ے سے اس کی تخفیف کرنا بن داڑھی پن کو تر جیح دیتے ہوےاپنے آ پ کو بچہ اور خو بصو رت ظاہر کرنے کے لئے اور یہ سب سے زیادہ قبیح خصلت ہے  ۔ 4۔ داڑھی میں سےسفید با ل اکھیڑنا ۔ 5۔ بنا وٹ اور زینت کے لئے اندازے سے زیا دہ اس کی سیٹینگ کرنا تا کہ عو رتو ں وغیر ہ کو اچھا لگے ۔ 6۔ کمی بیشی کرنا ۔ 7۔ داڑھی کو پر ا گند ہ چھو ڑنا تا کہ اپنے آپ کو زاہد اور بے پر واہ ظاہر کرے ۔ 8۔ اس کو لٹکانے میں تصنع سے کام لینا ۔ 9۔ خو د پسند ی کے لئے داڑھی کو دیکھتے رہنا ، جو انی کے دھوکے سے یا بڑھا پے کے فخر سے ۔ 10 ۔ داڑھی ہی کو گرہ دینا جیسے کہ ابو دا ؤد میں رو یفع بن ثابت کی جید الاسنا د حدیث سے ثابت ہے ، وہ کہتے ہیں کہ مجھے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا : اے رویفع !شاید تیر ی زندگی لمبی ہو تو لو گو ں کو یہ بتا دینا کہ جو داڑھی کو گرہ دیتا ہے ، وتر (کمان کی تندی ) کا قلا دہ گلے میں ڈالتا ہے یا جا نو ر کی لید یا ہڈی سے استنجاء کرتا ہے تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بیزار ہے ۔ 11۔ داڑھی منڈانا : ہا ں اگر عورت کی داڑھی نکلے تو اسے صاف کرسکتی ہے ۔ 12۔ داڑھی کو زرد رنگ دینا اتبا ع سنت کے لئے نہیں اپنے آپ کو صا لحین سے مشا بہ کر نے کے لئے ۔ 13۔ میں کہتا ہوں کہ ہر وقت داڑھی میں کنگھی کرتے رہنا بھی منع ہے جیسے  کہ حدیث میں آیا ہے : ( نھینا عن کثیرمن الا رفا ہ )) ( نسائی 8؍ 185 رقم : 5239) ہمیں زیادہ کنگھی کرنے سے منع فرما یا ہے ) 14۔ ہر وضو ء کے بعد کنگھی کرنا جیسے بعض صوفی کرتے تھے ۔ جاننا چاہیے کہ داڑھی کی شرعی اور لغوی لحا ظ سے حد ہے جس سےیہ بتہ چلتا ہے کہ داڑھی کی حد یہاں تک ہے اور اسے لینا جا ئز نہیں ۔ شا ہ ولی اللہ الدھلو ی رحمہ اللہ مسا ئل اللحیہ ص ( 29 ) میں کہتے ہیں کہ طوالت میں داڑھی کی حد داڑھی بچہ ( نچلے ہو نٹ کے بال  ) سے ٹھوڑی کے نیچے تک اور عرض میں رخسا روں کے بال یعنی چہر ے کے دو نو ں طر ف کے بال کنپٹی کے بالو ں سمیت نچلے جبڑے کے نیچے تک کے با لوں تک یہ سب داڑھی ہی کہلا تی ہے ۔ اور لسا ن العر ب میں ہے : ابن سید کہتے ہیں : داڑھی رخسا روں اور ٹھو ڑی پر اگنے والے بالو ں کا جا مع نام ہے ۔ اور تاج العر وس اور قامو س میں کہا ہے : داڑھی وہ ہےجو رخساروں اور ٹھوڑی پر اگیں اور یہ چہرے کے دو نو ں طر ف اور ٹھو ڑی پر اگنے والے بالو ں کا نام ہے ۔ تو اس سے داڑھی کی طو ل وعر ض میں حد معلو م ہو گئی ۔  اس کا عرض چہر ے کے دونوں طر ف رخسا روں اور کنپٹی کے با ل ہیں نچلے جبڑے کے نیچے اگے ہوئے بالوں تک ۔ اور لمبا ئی اس کی دا ڑھی بچہ کے با لو ں سے لیکر ٹوڑی کے نیچے اگے ہوئے بالوں تک یہ سب لغت میں داڑھی ہے اور شریعت نے داڑھی کی حد بندی میں لغت میں مو افقت کی ہے اور اس کی حدود میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی ۔ بلکہ ( وفرواللحی )  ۔۔ کہہ کر اسے بڑھانے اور جیسی اگی ہےاسی حالت پر کچھ بھی زائل کئے بغیر باقی رکھنے کا حکم دیا ہے ۔ کیو نکہ ا س کی خلقت میں کچھ بھی تبدیلی حرام ہے ۔ تو اس سے بیانے سے ثا بت ہو ا کہ جو ( متفقھہ ) رخسا روں کے بال لینے وغیرہ کو جا ئز کہتے ہیں ان کا قول باطل ہے ۔ جیسے تا تا ر خا نیہ میں ہے ۔ اور اسی طرح جو کترنے کو جا ئز سمجھتے ہیں مراجعہ کریں ( ادلة تحریم حلق الحلیہ ص( 83) اور سبا لین : اور یہ مو نچھوں کے دونو ں کنا روں کو کہتے ہیں اسے چھو ڑنےمیں حرج نہیں جیسے کہ عمر ﷜ کرتے تھے ۔ اور ان کے کترنے میں کو ئی حرج نہیں ۔ اما م بیہقی ہےیہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے جیسے کہ ادلہ تحریم اللحیہ ص( 73 ) میں ہے ۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ الدین الخالص ج1ص427
Flag Counter