Maktaba Wahhabi

827 - 2029
کپڑے سلائی کے وقت عورتوں کا ماپ لینا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ ہم لیڈیز ٹیلرنگ کا کام کرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں مختلف قسم کی عورتیں آتی ہیں، کچھ عورتیں ماپ کےلئے اپنے کپڑے لے کر آتی ہیں اور کچھ عورتیں کپڑوں کے بجائے اپنے جسم کاماپ دیتی ہیں ۔ ہمیں کسی نے بتا یا ہے کہ عورت غیر مرد کو جسم کا ماپ نہیں دے سکتی اور نہ ہی غیر مردعورتوں کےکپڑے دیکھ سکتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ کام حرام ہے مسئلہ کی وضاحت کریں فرمادیں؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! لباس انسانی فطرت کا ایک اہم مطالبہ ہے۔ قرآن کریم نے اس کی غرض و غایت بایں الفاظ بیان کی ہے‘‘کہ تمہارے جسم کے قابل شرم کو ڈھانکتا ہے اور تمہارے لئے جسم کی حفاظت اور زینت کا ذریعہ بھی ہے۔’’ (۷/الاعراف:۲۶) یعنی لباس انسان کی ستر پوشی جسم کی حفاظت اور اس کے لئے باعث زینت ہے۔ آیت کریمہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ انسان کےلئے لباس کی اخلاقی ضرورت‘‘سترپوشی’’اس کی طبع ضرورت ‘‘حفاظت و زینت’’سے مقدم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ لباس کا بنیادی فائدہ یہ  ہے کہ وہ ستر پوشی کافائدہ دے۔ اس کے برعکس اگر لباس اتنا باریک ہے کہ اس میں جسم کی جھلک نمایاں ہویا سلائی اتنی  چست ہے کہ جسم کےپوشیدہ حصوں کےخدوخال نمایاں ہوں۔ اس قسم کےلباس کو ستر پوشی نہیں کہا جاسکتا اور ایک ایمان دار درزی کے لئے ضروری ہے کہ وہ عورتوں کے ایسے تنگ لباس تیار کرنے سے پرہیز کرے جو ساتر ہونے کے بجائے ان کی عریانی کا باعث ہوں۔ اس قسم کے لباس کی اجرت جائزنہیں ہے ، خواہ عورتیں  خود ماپ دیں یا اپنے ماپ کا کپڑا بھیج دیں۔ اسی طرح عورتوں کو بھی چاہیے کہ وہ ہمیشہ سا تر لباس زیب تن کریں۔ انتہائی باریک اور  چست لباس سے اجتناب کریں۔مغرب زدہ لوگوں کی تحریک عریاں کو ناکام وہ نامراد بنانے کے لئے تمام مسلمان عورتیں اپنے ساتر لباس اور شرعی حجاب کی پابندی اختیار کریں ۔ اسلامی لباس تیار کرنے کی اجرت لی جاسکتی ہے۔ لیکن عورتوں کےجسم کی خود پیمائش نہ لے بلکہ یہ کام اپنی عزیزہ بہن ، بیٹی ، والدہ اور بیوی وغیرہ سے لیا جاسکتا ہے۔ عورت کے جسم کو بلاوجہ ہاتھ لگانا حرام ہے۔ بالخصوص جسم کے ان حصوں کو چھونا جو اعضائے صنفی کہلاتے ہیں اور جن سے شہوانی جذبات ابھرنے کا اندیشہ ہے اس کام کے لئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھنا ہوگا: (الف)مردوں اور بچوں کے لباس تیار کئےجائیں۔ (ب)عورتوں کے ساترلباس تیار کئے جاسکتےہیں، بشرطیکہ ان کی پیمائش خود نہ لے جائے ، بلکہ ان کے کپڑوں کے ماپ سے کام چلایا جائے۔ (ج)بہتر ہے کہ خواتین کسی خاتون ٹیلر کی خدمات حاصل کریں اورشرعی حدود میں رہتے ہوئے ان سے اپنے لباس تیار کرائیں۔ مختصر یہ ہے کہ لباس تیار کرتے وقت مذکورہ بالا قرآنی ہدایات کو ضرور مد نظر رکھا جائے، کیونکہ لباس تو تقویٰ کا ہی بہتر ہے۔ (واللہ اعلم ) ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتاویٰ اصحاب الحدیث ج2ص397
Flag Counter