Maktaba Wahhabi

844 - 2029
عورت کا چہرے کے بال اکھاڑنا السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ کیا عورت کا چہرے کے بال اکھاڑناجائز ہے؟  الجواب بعون الوہاب بشرط صحة السؤال وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ! الحمد للہ، والصلاة والسلام علیٰ رسول اللہ، أما بعد! مرد وعورت کو شریعت نے جہاں زندگی کے دوسرے معاملات میں اوامر و نواہی کا خیال رکھنے کا کہا ہے وہاں ان کو اپنے وجود میں تصرف کی حدود کا تعین بھی کردیاہے۔ مرد اور عورت چونکہ اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ الگ الگ صنف ہیں او رہر ایک مخصوص ساخت رکھتا ہے۔ خالق کی مرضی یہی ہے کہ جس طرح اس نے ان دونوں کو ان کی شکل پر پیدا کیا ہے۔ اس میں تبدیلی نہ لائی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ لیس منا من تشبہ بالرجال من النساء و لا من تشبہ بالنساء من الرجال ‘‘ (صحیح الجامع الصغیر5434) جو عورتیں مردوں کی مشابہت کریں اور جو مرد عورتوں کی مشابہت اختیار کریں وہ ہم میں سے نہیں۔ اللہ نے مردوں کے چہرے پر داڑھی کو سجایا ہے اور یہ مرد کی ہیئت میں ایک علامت ہے اور یہی وجہ ہے کہ مرد کی ساخت میں چہرے کے بال یعنی داڑھی اصل ساخت کی نشانی ہے ہاں اگر کسی کے داڑھی آئی ہی نہیں تو وہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ کی طے کی ہوئی ساخت کے مطابق اسے بنانے کی کوشش کی جائے تو یہ عمل جائز ہوگا۔ جیسے اگر کسی کی داڑھی نہ ہو تو وہ ایسی میڈیسن استعمال کرے کہ اس کی داڑھی آجائے تو یہ جائز ہوگا۔اسی طرح عورت کے چہرے کو اللہ نے داڑھی سے صاف رکھا ہے اور اس کی اصل ساخت یہی ہے ۔لہذا اگر وہ چہرے کے زائد بالوں کو اکھاڑتی ہے تو یہ اصل کے مطابق ہے اور جائز ہے۔ لیکن یاد رہے کہ ابرو اور پلکوں کے بالوں کو اکھاڑنا جائز نہیں ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یلعن المتنمصات والمتفلجات والموتشمات اللاتی یغیرن خلق اللہ عز وجل . ‘‘ (سنن نسائی:5108،قال الالبانی حسن صحیح) لعنت کی گئی ہے چہرے کے بالوں کو اکھاڑنے والیوں پر ، دانتوں کو رگڑنے والیوں پر اور گوندنے والیوں پر جو اللہ کی خلق کو بدل دیتی ہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب فتوی کمیٹی محدث فتوی
Flag Counter